’ابو عاقلہ کی ہلاکت امکاناﹰ اسرائیلی فوجی کی گولی سے ہوئی‘
6 ستمبر 2022الجزیرہ کی صحافی شیریں ابو عاقلہ مئی میں مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج کے ایک چھاپے کی کوریج کے دوران ہلاک ہوگئی تھیں۔ فلسطینیوں نے ان کے قتل کا الزام اسرائیل پر عائد کیا تھا لیکن اسرائیل نے اس کی تردید کرتے ہوئے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ وہ عسکریت پسندوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئیں۔ اسرائیل نے تاہم بعد میں کہا کہ ہوسکتا ہے کہ فائرنگ کے تبادلے کے دوران غلطی سے کسی فوجی کا نشانہ بن گئی ہوں۔
اسرائیلی وزرات دفاع (آئی ڈی ایف) نے ابوعاقلہ کی موت کے حوالے سے اپنی داخلی تفتیش کی رپورٹ پیر کے روز جاری کی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے،"اس بات کا قوی امکان ہے کہ ابوعاقلہ آئی ڈی ایف کے کسی اہلکار کے فائرنگ میں، اتفاقی طور پر ہلاک ہوگئی ہوں، جس نے مشتبہ فلسطینی بندوق برداروں کو نشانہ بنایا تھا۔"
اسرائیلی فوجیوں کے انٹرویو اور جائے واقعہ کے تجزیہ نیز آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ کے تجزیے کے بعد پتہ چلا ہے کہ کسی فوجی کی جانب سے فائرنگ کے تبادلے کے دوران غلطی سے ابوعاقلہ اس کی گولی کا نشانہ بن گئیں۔
اسرائیلی دستوں کے کئی فلسطینی سول گروپوں کے دفاتر پر چھاپے
ایک اعلیٰ اسرائیلی فوجی افسر کا کہنا تھا،"ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ طے کرنا ممکن نہیں ہے کہ کس کی گولی سے وہ ہلاک ہوئیں لیکن اس بات کا قوی امکان ہے کہ آئی ڈی ایف کے کسی ایسے فوجی کی طرف سے چلائی گئی گولی غلطی سے انہیں لگ گئی ہو جو انہیں ایک صحافی کے طور پر شناخت نہیں کر سکا۔"
خیال رہے کہ جس وقت شیریں ابوعاقلہ کو گولی لگی اس وقت انہوں نے ایک ہیلمٹ اور جیکٹ پہن رکھی تھی جس پر 'پریس' نمایاں طور پر لکھا ہوا تھا۔
کسی فوجی کو سزا نہیں دی جائے گی
آئی ڈی ایف کا کہنا ہے کہ چھاپے کی کارروائی کے دوران اس کے فوجیوں پر ہر طرف سے زبردست حملے کیے گئے جس کے جواب میں فوجیوں نے اس جانب بھی فائرنگ کی جہاں ابوعاقلہ کھڑی تھیں۔
تاہم عینی شاہدین نے اسرائیل کے اس دعوے کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ابوعاقلہ جس جگہ کھڑی تھیں ادھر سے کوئی فائرنگ نہیں ہو رہی تھی۔
فلسطینی خاتون صحافی کے جنازے پر اسرائیلی پولیس کا حملہ
لیکن آئی ڈی ایف کا کہنا ہے کہ اس کی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ فوجیوں نے ایسے حالات میں جوابی اقدامات کے ضابطوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کارروائی کی۔ اس لیے کسی فوجی کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی۔
ابو عاقلہ کے اہل خانہ کا بیان
شیریں ابو عاقلہ کے اہل خانہ نے تحقیقات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ فوج نے قتل کی ''حقیقت کو چھپانے اور ذمہ داری سے بچنے کی کوشش کی'' ہے۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا، ''ہمارا خاندان اس نتیجے سے حیران نہیں ہے کیونکہ یہ کسی کے لیے بھی واضح ہے کہ اسرائیلی جنگی مجرم اپنے جرائم کی تفتیش نہیں کر سکتے۔ تاہم، ہم شدید دکھی اور مایوس ہیں۔''
خاندان نے غیر جانبدار امریکی تحقیقات اور بین الاقوامی جرائم کی عدالت سے تحقیقات کے مطالبے کا بھی اعادہ کیا ہے۔
انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی فائرنگ سے ہونے والی ہلاکتوں کی اسرائیلی تحقیقات اکثر مہینوں یا سالوں تک خاموشی سے بند ہونے سے پہلے ہی التوا کا شکار رہتی ہیں اور فوجیوں کو شاذ و نادر ہی جوابدہ ٹھہرایا جاتا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک تازہ بیان میں اسرائیل کے اعتراف پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا، ''ہم اس افسوسناک واقعے میں اسرائیل کے جائزے کا خیر مقدم کرتے ہیں اور دوبارہ اس کیس میں احتساب کی اہمیت پر زور دیتے ہیں، مثلاً ایسی پالیسیاں اور طریقہ کار جس سے مستقبل میں ایسے واقعات نہیں ہوں۔''
ج ا/ ص ز (روئٹرز، اے پی)