فائرنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات نے دنیا بھر میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ امیر ممالک میں اسلحہ رکھنے کے کیا قوانین ہیں اور لائسنس کے لیے کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے؟ یہ جانتے ہیں اس رپورٹ میں۔
اشتہار
جاپان میں جمعہ کے روز سابق وزیر اعظم شینزو آبے کی فائرنگ سے ہلاکت نے پوری دنیا میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ جاپان ایک ایسا ملک ہے جہاں اسلحہ رکھنے کے سخت ضوابط ہیں۔ لیکن ماضی میں کئی ترقی یافتہ ممالک میں ایسے ہائی پروفائل کیسز ہو چکے ہیں۔ ڈی ڈبلیو نے اس رپورٹ میں ایسے چند ممالک میں اسلحہ رکھنے سے متعلق قوانین کا تجزیہ کیا ہے۔
امریکا میں اندھا دھند فائرنگ کے ہلاکت خیز واقعات
امریکا میں لوگوں پر بلااشتعال فائرنگ کے ہلاکت خیز واقعات جدید دور کا المیہ بن چکے ہیں۔ ان واقعات میں اوسطاً سالانہ 30 ہزار انسان مارے جاتے ہیں۔ ایسی اندھا دھند فائرنگ کے واقعات کسی بھی وقت کسی بھی جگہ رونما ہو سکتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/S. Platt
تھاؤزنڈ اوکس کے ریستوراں میں فائرنگ
سن 2018 نومبر میں ایک اٹھائیس سالہ سابق میرین فوجی نے لاس اینجلس شہر کے نواحی علاقے تھاؤزنڈ اوکس کے ایک ریسٹورنٹ میں فائرنگ کر کے بارہ افراد کو ہلاک اور دس دیگر کو زخمی کر دیا۔ بارڈر لائن اینڈ گرل نامی ریسٹورنٹ میں ایک کالج کے نوجوان طلبہ کی پارٹی جاری تھی۔ سابق امریکی فوجی نے حملے کے بعد خود کو گولی مار کر خود کشی کر لی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Terrill
پِٹس برگ کا کنیسہ، دعائیہ عبادت کے دوران فائرنگ
اکتوبر سن 2018 میں پِٹس برگ شہر کے نواحی یہودی علاقے کی ایک قدیمی عبادت گاہ میں کی گئی فائرنگ سے گیارہ عبادت گزار مارے گئے۔ اس حملے کا ملزم گرفتار کر لیا گیا اور اسے انتیس فوجداری الزامات کا سامنا ہے۔ امکان ہے کہ استغاثہ اس کے لیے موت کی سزا کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ اس حملہ آور نے پولیس کو بتایا تھا کہ اس کے نزدیک یہودی نسل کشی کے مرتکب ہوئے تھے اور وہ انہیں ہلاک کرنا چاہتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Wittpenn
پارک لینڈ، فلوریڈا
امریکی ریاست فلوریڈا کے علاقے پارک لینڈ کے ایک ہائی اسکول کے سابق طالب علم نے فروری 2018ء میں اپنے اسکول میں داخل ہو کر اپنے ساتھی طلبہ پر فائرنگ کی اور کم از کم سترہ افراد کو ہلاک کر دیا۔ اس واقعے کے بعد امریکی طلبہ نے اسلحے پر پابندی کے حق میں ملک گیر احتجاج بھی کیا۔
تصویر: picture-alliance/E.Rua
ٹیکساس کے چرچ میں دو درجن سے زائد ہلاکتیں
امریکی ریاست ٹیکساس کے علاقے سدرلینڈ اسپرنگز میں ایک چھبیس سالہ نوجوان نے اپنے سسرالی رشتہ داروں سے ناراضی کے بعد ایک گرجا گھر میں داخل ہو کر حملہ کیا۔ فرسٹ بیپٹسٹ چرچ میں نومبر سن 2017 میں کی گئی اس فائرنگ کے نتیجے میں چھبیس افراد مارے گئے تھے۔ ہلاک شدگان کی عمریں اٹھارہ سے بہتر برس کے درمیان تھیں۔
لاس ویگاس کے نواح میں منعقدہ کنٹری میوزک فیسٹیول کے شرکاء پر کی گئی فائرنگ کو جدید امریکی تاریخ کا سب سے خونی حملہ قرار دیا گیا تھا۔ ایک چونسٹھ سالہ حملہ آور نے ایک ہوٹل کی کھڑکی سے میلے کے شرکاء پر بلااشتعال فائرنگ کر کے انسٹھ افراد کو ہلاک کر دیا۔ آٹھ سو سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔ اس شخص نے بعد میں خود کو گولی مار کر خود کشی کر لی تھی۔ اس حملے کے محرکات ابھی تک غیر واضح ہیں۔
تصویر: picture-alliance/M. J. Sanchez
پَلس نائٹ کلب، اورلینڈو
ایک افغان نژاد امریکی نے ریاست فلوریڈا کے بڑے شہر اورلینڈو کے ہم جنس پرستوں کے ایک کلب میں داخل ہو کر کم از کم پچاس افراد کو اپنی رائفل سے بلااشتعال فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ جون سن 2016 میں کیے گئے اس حملے کی وجہ حملہ آور کی ہم جنس پرستی سے شدید نفرت تھی۔ اس حملے کی دنیا بھر کے ہم جنس پرست حلقوں نے مذمت کی تھی۔
تصویر: Reuters/J. Young
سینڈی ہُک اسکول، نیو ٹاؤن، کنَیٹیکٹ
امریکی ریاست کنیٹیکٹ کے شہر نیو ٹاؤن کے سینڈی ہُک ایلیمنٹری اسکول میں ایک بیس سالہ نوجوان نے داخل ہو کر فائرنگ کی اور کم از کم بیس افراد کو ہلاک کر دیا۔ ہلاک ہونے والوں میں چھ اساتذہ کے علاوہ باقی سب چھ سے آٹھ برس تک کی عمر کے بچے تھے۔ حملہ آور نے اس حملے سے قبل اپنی والدہ کو بھی گولی مار کر ہلاک کیا تھا۔ بعد ازاں اس نوجوان نے خود کشی کر لی تھی۔
تصویر: AP
سینچری سِکسٹین تھیٹر، اورورا
ریاست کولوراڈو کے شہر اورورا میں ایک فلم دیکھنے والوں کو جولائی سن 2012 میں ایک مسلح شخص کی گولیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس فائرنگ میں چودہ افراد ہلاک اور پچاس دیگر زخمی ہوئے تھے۔ فلم بین بیٹ مین سیریز کی فلم ’دی ڈارک نائٹ رائزز‘ دیکھ رہے تھے جب ان پر فائرنگ کی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ورجینیا ٹیک یونیورسٹی، بلیکس برگ
ورجینیا کی ٹیکنیکل یونیورسٹی میں ایک طالب علم نے فائرنگ کر کے بتیس افراد کو قتل کر دیا تھا۔ اپریل سن 2007 کی اس فائرنگ کے بعد امریکی عوام نے بہت بااثر نیشنل رائفلز ایسوسی ایشن کی مخالفت شروع کر دی تھی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ یہ تنظیم امریکا میں گن کنٹرول قوانین کی مخالف ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Maury
کولمبائن ہائی اسکول، لِٹلٹن
ریاست کولوراڈو کے شہر لِٹلٹن میں کی گئی اس فائرنگ نے پوری امریکی قوم کو صدمے سے دوچار کر دیا تھا۔ یہ کسی اسکول میں اندھا دھند فائرنگ کا پہلا واقعہ تھا۔ کولمبائن ہائی اسکول کے دو ناراض طلبہ خودکار ہتھیار لے کر اسکول میں داخل ہوئے تھے اور انہوں نے فائرنگ کر کے تیرہ انسانوں کی جان لے لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Jefferson County Sheriff's Department
10 تصاویر1 | 10
جاپان
جاپان میں قانون کے مطابق کسی کے پاس آتشی اسلحہ، تلوار یا تیز دھار آلات رکھنا غیر قانونی ہے۔ جاپان میں اسلحہ کی نجی ملکیت سے متعلق سخت ترین ضابطے موجود ہیں۔ پولیس اور فوج کے علاوہ کسی کو بھی بندوق رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ عام شہریوں کو صرف شاٹ گن اور ایئر رائفلیں رکھنے کی ہی اجازت ہے۔
یہاں تک کہ جاپان میں ان ہتھیاروں کو خریدنا ایک طویل اور تھکا دینے والا عمل ہے۔ بندوق کے ممکنہ مالک کو لازمی طور پر تربیتی کلاسوں میں شرکت کرنا پڑتی ہے اور کم از کم 95 فیصد کی درستگی کے ساتھ تحریری ٹیسٹ اور شوٹنگ رینج ٹیسٹ بھی پاس کرنا ہوتا ہے۔
درخواست دہندگان کو ذہنی صحت کی جانچ سے بھی گزرنا ہوتا ہے۔ اس کے بعد پولیس ان کے خاندانی پس منظر کی جانچ پڑتال بھی کرتی ہے۔ اسلحہ خریدنے کے خواہشمند کے مجرمانہ ریکارڈ بھی جانچے جاتے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اس کا کسی قسم کا کوئی کریمنل ریکارڈ موجود نہیں۔
اس تمام مشقت کے بعد ملنے والا لائسنس بھی صرف تین سال کے لیے کارآمد ہوتا ہے۔ اسلحہ کے مالک کو اپنے لائسنس کی تجدید کے لیے ہر تین سال بعد دوبارہ کلاس اور امتحان دینا لازمی ہوتا ہے اور ساتھ ہی پولیس کو سال میں ایک بار اسلحہ کا اندراج اور معائنہ کروانا بھی ضروری ہوتا ہے۔
شینزو آبے سے قبل، آخری بار پندرہ سال پہلے سن 2007 میں ایک قاتلانہ حملے میں ناگاساکی شہر کے میئر کو قتل کیا گیا تھا۔ اس قتل کے بعد جاپان میں یہ پابندیاں مزید سخت کر دی گئی تھیں اور غیر قانونی طور پر اسلحہ رکھنے پر سزائیں بڑھا دی گئی تھیں۔
ڈنمارک
چار جولائی کو ہائی لینڈ پارک، الینوائے میں ایسے ہی ایک واقعے میں چھ افراد کی ہلاکت کے بعد امریکی قدامت پسندوں نے، ڈینمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن کے شاپنگ سینٹر میں تین جولائی کو ہونے والی فائرنگ کی مثال دی جس میں تین افراد ہلاک ہوگئے تھے، یہ دلیل دی کے بندوق رکھنے سے متعلق طے شدہ سخت قوانین ایسے واقعات کو روکنے میں ناکام ہیں۔ جب کہ ان کے مخالفین کی جانب سے یہ موقف اختیار کیا گیا کہ ڈنمارک میں سن 1994 سے اب تک صرف تین بڑے فائرنگ کے واقعات ہوئے ہیں - دوسری جانب سن 2022 کے دوران امریکہ ایسے 300 سے زائد واقعات جھیل چکا ہے۔
ڈنمارک میں آتشی اسلحے کو وزارت انصاف کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ یہاں کے قوانین کے مطابق شہری مکمل طور پر خودکار آتشی اسلحہ نہیں رکھ سکتے۔ نیم خودکار ہتھیاروں اور ہینڈ گنز صرف خصوصی اجازت لے کر ہی رکھے جا سکتے ہیں۔ ان کی جانچ پڑتال کا عمل بھی جاپان جیسا ہی سخت ہے۔
نیوزی لینڈ
کرائسٹ چرچ میں سن 2019 میں ایک سفید فام بندوق بردار نے 51 افراد کو ہلاک اور کم از کم 40 کو زخمی کر دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد حکومت نے ایک ماہ کے اندر کارروائی کرتے ہوئے نیم خودکار ہتھیاروں اور اسالٹ رائفلز پر ملک بھر میں پابندی عائد کر دی۔
جرمنی
سن 2015 میں پیرس میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے تناظر میں، یورپی کمیشن نے اصلاحات کا ایک مسودہ تیار کیا تھا جسے سن 2020 میں جرمنی کے ہتھیاروں کے قوانین میں شامل کیا گیا تھا۔ تب سے حکام کو ملکی انٹیلی جینس سروسز سے درخواست دہندہ کی معلومات لینا ہوتی ہیں۔ بندوق کا پرمٹ جاری کرنے سے پہلے، حکام کو ہر پانچ سال بعد یہ بھی چیک کرنا لازم ہے کہ رجسٹرڈ بندوق کے مالک کو ہتھیار رکھنے کی 'جائز ضرورت‘ ہے یا نہیں۔ اس کا عام طور پر مطلب یہ ہوتا ہے کہ پولیس چیک کرتی ہے کہ آیا بندوق کا مالک کسی شوٹنگ کلب کا رکن ہے اور اس کے پاس شکار کا لائسنس موجود ہے یا نہیں۔
یہ اقدام انتہا پسندوں کے حملوں کو روکنے کے لیے کافی ہو گا یا یہ بے سود رہا، یہ بحث جاری ہے۔ ٹوبیاس آر - ہناؤ کا مجرم، جس نے سن 2020 میں 9 افراد کو قتل کیا اور نیو نازی اسٹیفن ای - جس نے سن 2019 میں ایک مقامی گورنر والٹر لیوبکے کو قتل کیا تھا، دونوں شوٹنگ کلب کے ممبرز تھے۔
جرمن نائٹ کلب میں فائرنگ
00:40
سوئٹزرلینڈ
سوئٹزرلینڈ دنیا میں سب سے زیادہ ہتھیاروں سے لیس ممالک میں سے ایک کے طور پر جانا جاتا ہے۔ 8.5 ملین کی آبادی میں 2.3 ملین سے زیادہ آبادی کے پاس اپنی بندوقیں ہیں۔
سوئٹزرلینڈ میں بندوق کا کلچر بنیادی طور پر اس کی ملیشیا فوج سے جڑا ہوا ہے۔ فوجی سروس تمام مرد شہریوں کے لیے لازم ہے۔ اپنی سروس ختم کرنے کے بعد وہ کام کے لیے استعمال ہونے والی بندوق گھر لے جا سکتے ہیں۔
سوئٹزرلینڈ یورپی یونین کا رکن نہیں ہے لیکن شینگن زون میں ہے اور اس کا ای یو کے ساتھ قریبی تعلق ہے۔ اس بنیاد پر اس ملک پر بھی ہتھیار رکھنے کے حوالے سے وہی قانون لاگو ہوں گے جو کے شینگن ممالک کے لیے بنائے جائیں گے۔
برطانیہ اور ناروے
برطانیہ نے ایسے واقعات اور بندوق کی ملکیت کو محدود کرنے کے لیے ایک طویل حکمت عملی اپنا رکھی ہے۔ اب اس ملک میں اسلحہ رکھنے کے سخت ترین قوانین موجود ہیں۔ سن 1987 میں ہنگر فورڈ کے قاتلانہ حملے کے بعد، جس میں 16 افراد ہلاک ہو گئے تھے، حکومت نے نیم خودکار سینٹر فائر رائفلز کی ملکیت پر پابندی لگانے اور شاٹ گن کے استعمال پر نئی پابندیاں متعارف کرانے کے لیے بڑے اقدامات کیے۔
لندن میں دہشت گردانہ حملے: تصاویر
لندن میں فائرنگ اور عام لوگوں پر گاڑی چڑھا دینے کے واقعات میں کم از کم چار ہلاکتوں اور بیس سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔
تصویر: Reuters/E.Keogh
ویسٹ منسٹر برج پر ایک شخص نے اپنی گاڑی عام لوگوں پر چڑھا دی جس کے باعث دو افراد ہلاک اور بیس کے قریب زخمی ہو گئے۔
تصویر: Reuters/T.Melville
ایمرجنسی سروسز کی کئی ایمبولینسیں ویسٹ منسٹر پُل کے قریب دیکھی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Reuters/E. Keogh
شدید زخمیوں کو فوری طور پر ہسپتال پہنچانے کے لیے ایئر ایمبولنس استعمال کی گئی۔ اس تصویر میں برطانوی پارلیمنٹ کی عمارت کے سامنے ایک ریسکیو ہیلی کاپٹر دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/S.Wermuth
ایک دوسرے واقعے میں برطانوی پارلیمنٹ کے باہر ایک شخص نے وہاں موجود پولیس اہلکاروں پر خنجر سے حملہ کر دیا۔ یہ حملہ آور پولیس کی فائرنگ میں مارا گیا۔ اس حملے میں زخمی ہونے والا ایک پولیس اہلکار بھی بعد ازاں دم توڑ گیا۔
تصویر: Getty Images/J. Taylor
اس نقشے میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بدھ کی سہ پہر وسطی لندن میں یہ دونوں واقعات ایک دوسرے سے محض چند سو میٹر کے فاصلے پر پیش آئے۔
تصویر: Google Maps
ان حملوں کے فوراﹰ بعد اضافی سکیورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد بھی موقع پر پہنچ گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Wigglesworth
ویسٹ منسٹر برج پر عام لوگوں پر گاڑی چڑھانے والے شخص کے بارے میں ابھی تک کوئی اطلاع نہیں۔ پولیس نے شہریوں کو علاقے سے دور رہنے کی ہدایت کی ہے۔
تصویر: Reuters/S. Wermuth
7 تصاویر1 | 7
سن 1996 میں ڈنبلین پرائمری اسکول کا قتل عام، جس میں 16 بچے اور ایک استاد مارے گئے، برطانیہ میں بندوق رکھنے کے قوانین میں مزید اصلاحات کا باعث بنا۔
ناروے میں صورتحال قدرے مختلف نظر آتی ہے۔ سن 2011 میں ایک دہشت گردانہ حملے میں 77 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ حملے کی ایک دہائی بعد سن 2021 حملے میں استعمال ہونے والے نیم خودکار ہتھیاروں پر پابندی لگا دی گئی۔ ناروے میں اب بھی دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں آتشی اسلحے کی ملکیت کی شرح بہت زیادہ ہے لیکن اسلحہ سے متعلق تشدد کے واقعات کی شرح کافی کم ہے۔