برطانوی وزیرِ داخلہ امبر رُڈ امیگریشن اسکینڈل کے تناظر میں اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئی ہیں۔ ایک طویل عرصے سے برطانیہ میں مقیم افراد کو ’غیرقانونی تارکین وطن‘ پکارے جانے کی وجہ سے انہیں عہدہ چھوڑنا پڑا۔
اشتہار
طویل عرصے سے برطانیہ میں مقیم کیریبیئن خطے سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کو غلطی سے ’غیرقانونی تارکین وطن‘ کہنے پر انہیں داخلی طور پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ امبر رُڈ نے ابتدا میں اپنے عہدے پر رہنے کا اعلان کیا تھا، تاہم چند ہی گھنٹوں بعد انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔
’جنگلاتی کیمپ‘ سے مہاجرین کی جزوی بے دخلی
فرانسیسی حکام نے برطانیہ کی طرف جانے والی یورو ٹنل کے قریب مہاجرین کے ’جنگلاتی کیمپ‘ کو ہٹانے کے احکامات جاری کر دیے ہیں تاکہ وہاں بفر زون قائم کیا جا سکے۔ کیمپ کے رہائشی اب اپنی جمع پونجی بچانے کی کوششوں میں ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
نئی جگہ کی تلاش
فرانسیسی حکام نے برطانیہ اور فرانس کے درمیان زیر سمندر یورو ٹنل کی طرف جانے والی ہائی وے سے ملحق ایک سو میٹر کا بفر زون بنانے کے لیے ’جنگل کیمپ‘ خالی کیے جانے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ اس سلسلے میں رضاکار مہاجرین کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
چوبیس گھنٹے پولیس کی نگرانی
تصویر میں اوپر نظر آنے والی ہائی وے یورو ٹنل کی طرف جاتی ہے۔ مہاجرین برطانیہ پہنچنے کے لیے اس راستے سے گزرنے والے ٹرکوں میں سوار ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں پولیس کی بھارتی نفری تعینات ہے تاکہ برطانیہ میں غیر قانونی داخلے کی کوشش کرنے والوں کو روکا جا سکے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ہر ممکن طریقے سے
مہاجرین کو یہ جگہ خالی کرنے کے لیے جمعرات تک کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی۔ یہ بفر زون کب تک مکمل طور پر خالی ہو سکے گا، اس بارے میں حتمی تاریخ کسی کو بھی معلوم نہیں۔ لیکن رضا کار تیزی سے کام کر رہے ہیں۔ جمعے کے روز تقریباﹰ ایک سو شیلٹرز کو نئی جگہوں پر منتقل کیا گیا۔
تصویر: DW/D. Cupolo
نئے علاقے کی صفائی
رضاکار تنظیم Care4Calais کے اراکین مہاجرین کی رہائش کے لیے نئی جگہ صاف کر رہے ہیں۔ اس تنظیم کی رضاکار خاتون روتھ بوگیوتھ کہتی ہیں کہ جب وہ افغانستان میں تھیں، تو انہیں ہر گھر سے محبت ملی اور ان کی مہمان نوازی کی گئی۔ اسی لیے اب وہ ان مہاجرین کی ہر ممکن مدد کرنا چاہتی ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
بلا تشدد بے دخلی
ابھی تک کچھ مہاجرین کیمپ کے اسی منہدم کر دیے گئے حصے میں رہ رہے ہیں۔ نئے بفر زون کے قیام سے ’جنگلاتی کیمپ‘ میں مقیم تقریباﹰ پندرہ سو سے ساڑھے چار ہزار تک مہاجرین متاثر ہوں گے۔ گزشتہ چار ماہ سے کَیلے میں مقیم افغان مہاجر سیف اللہ کا کہنا تھا کہ وہ اپنی رہائش نہیں چھوڑے گا۔ لیکن اگر پولیس آئے گی، تو وہ بغیر کسی مزاحمت کے وہاں سے ہٹ جائے گا۔
تصویر: DW/D. Cupolo
کنٹینر کیمپ
فرانسیسی حکومت کَیلے کے قریب ہی مہاجرین کے لیے ایک نیا کنٹینر کیمپ تعمیر کر رہی ہے۔ اس نئے کیمپ میں دو ہزار مہاجرین کو رکھا جائے گا لیکن تارکین وطن وہاں جانے کے لیے تیار نہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ وہاں رہائش کے لیے ان کے فنگر پرنٹس لیے جائیں گے اور اس طرح ان کے یورپ میں سیاسی پناہ کے مواقع کم ہو جائیں گے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
فرانسیسی مزاحمت
شام کے ایک مہاجر محمد شیخ کا کہنا تھا کہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ فرانس ان کے ساتھ کیسا سلوک کر رہا ہے، ’’وہ سمجھتے ہیں کہ ہم بیوقوف ہیں۔ نئے کیمپ کا بہانہ بنا کر وہ ہمارے فنگر پرنٹس حاصل کر لیں گے۔ وہ ایک جیل کی طرح ہے۔ کیمپ میں داخلے کے بعد وہ ہمیں وہاں سے جانے نہیں دیں گے اور میں یہاں فرانس میں رہنا نہیں چاہتا۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
بڑھتی ہوئی کشیدگی
بفر زون کو خالی کرنے کے نوٹس اور پولیس کی بڑھتی ہوئی نفری کی وجہ سے کیمپ میں لڑائیوں کا سلسلہ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ اکثر اوقات ڈاکٹروں کو ان مہاجرین کا علاج کرنا پڑتا ہے، جو یا تو آپس کی لڑائیوں میں زخمی ہوئے ہوں یا پھر رات کے وقت پولیس کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
شدید ہوتا ہوا مسئلہ
مہاجرین کو خوف ہے کہ حکومت آہستہ آہستہ ان کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہے۔ یہاں سے فرار ہونے والے مہاجرین دیگر جگہوں پر جنگلاتی علاقوں میں کیمپ قائم کر رہے ہیں۔ یہاں کے ایک سو بیس مہاجرین نقل مکانی کر کے بیلجیم میں اپنا ایک نیا کیمپ آباد کر چکے ہیں۔ اب یہ مسئلہ مختلف یورپی علاقوں میں پھیلتا جا رہا ہے۔
برطانوی وزیراعظم ٹیریزا مے کے دفتر سے اتوار کے روز جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امبر رُڈ کا استعفیٰ منظور کر لیا گیا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانیہ کی تعمیر نو کے لیے کیریبیئن خطے سے تعلق رکھنے والے افراد کو برطانیہ لایا گیا تھا، تاہم برطانوی حکومت کی جانب سے اب ان افراد کی تیسری یا چوتھی نسل کو ’غیرقانونی تارکین وطن‘ کہنے پر حالیہ کچھ عرصے میں برطانوی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا تھا۔
اس سلسلے میں برطانوی حکومت کو اور زیادہ سخت تنقید کا سامنا اس وقت کرنا پڑا، جب برطانوی اخبار دا گارڈیئن نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ ان میں سے بعض تارکین وطن کو برطانیہ میں طبی سہولیات تک رسائی نہیں دی گئی اور دھمکایا گیا کہ وہ برطانیہ میں اپنے ’جائز قیام‘ سے متعلق دستاویزات لے کر آئیں، دوسری صورت میں انہیں ملک بدر کر دیا جائے گا۔
اپوزیشن رہنما ڈیان ایبٹ نے رُڈ کے استعفے کے بعد کہا، ’’یہ استعفیٰ حیرت کی بات نہیں، حیرت کی بات یہ ہے کہ اسے اتنا وقت کیوں لگا۔ اس معاملے کی اصل منصوبہ ساز وزیراعظم مے اب سامنے آئیں اور عوام کو مکمل وضاحت دیں کہ ان کی آنکھوں کے سامنے اس انداز کی ناقابل بیان صورت حال کیسے پیدا ہوئی۔‘‘
جرمنی: زیر تربیت مہاجرین کا تعلق ان ممالک سے ہے
گزشتہ برس مجموعی طور پر نو ہزار تین سو تارکین وطن کو مختلف جرمن کمپنیوں میں فنی تربیت (آؤس بلڈُنگ) کے حصول کی اجازت ملی۔ زیادہ تر مہاجرین کا تعلق مندرجہ ذیل ممالک سے ہے.
تصویر: D. Kaufmann
۱۔ افغانستان
افغانستان سے تعلق رکھنے والے 3470 مہاجرین اور تارکین وطن مختلف جرمن کمپنوں میں زیر تربیت ہیں۔
تصویر: DW/A. Grunau
۲۔ شام
جرمنی میں شامی مہاجرین تعداد کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہیں، لیکن زیر تربیت مہاجرین کی تعداد محض ستائیس سو رہی، جو افغان پناہ گزینوں سے بھی کم ہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
۳۔ عراق
ملک بھر کی مختلف کمپنیوں میں آٹھ سو عراقی مہاجرین تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
۴۔ اریٹریا
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے سات سو دس تارکین وطن کو فنی تربیت کے حصول کے لیے جرمن کمپنیوں نے قبول کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
۵۔ ایران
جرمنی میں پناہ کے متلاشی ایرانیوں کی تعداد تو زیادہ نہیں ہے لیکن فنی تربیت حاصل کرنے والے ایرانی تارکین وطن تعداد (570) کے اعتبار سے پانچویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
۶۔ پاکستان
چھٹے نمبر پر پاکستانی تارکین وطن آتے ہیں اور گزشتہ برس ساڑھے چار سو پاکستانی شہریوں کو جرمن کمپنیوں میں انٹرنشپ دی گئی۔
تصویر: DW/R. Fuchs
۷۔ صومالیہ
اس حوالے سے ساتواں نمبر صومالیہ کے تارکین وطن کا ہے۔ صومالیہ کے 320 تارکین وطن کو فنی تربیت فراہم کی گئی۔
تصویر: DW/A. Peltner
۸۔ نائجیریا
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے 280 پناہ گزینوں کو گزشتہ برس جرمنی میں فنی تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا۔
تصویر: A.T. Schaefer
8 تصاویر1 | 8
اپوزیشن لیبر پارٹی کی جانب سے رُڈ سے بار بار کہا جا رہا تھا کہ وہ مستعفی ہو جائیں۔ پیر کے روز اسی تناظر میں لیبر پارٹی برطانوی پارلیمان میں اپنا باقاعدہ ردعمل ظاہر کرے گی۔ حالیہ کچھ دنوں میں رُڈ اور وزیراعظم مے، اس معاملے پر کئی مرتبہ معذرت کر چکی ہیں۔
جمعرات کے روز برطانوی اخبار ’دی وائس‘ کے لیے اپنے ایک مراسلے میں ٹیریزا مے نے کہا تھا، ’’ہم نے آپ کو مایوس کیا، اس کے لیے ہم دلی طور پر معذرت خواہ ہیں۔ مگر اس معاملے میں صرف معذرت کافی نہیں۔ ہمیں اس تاریخی خرابی کو درست کرنا ہے۔‘‘