1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش میں سخت گیر مسلمان کیوں مقبول ہو رہے ہیں؟

20 دسمبر 2018

بنگلہ دیش میں عام انتخابات کا انعقاد رواں ماہ کے اختتام پر ہو رہا ہے، تاہم وزیراعظم حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ اور اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت نیشنسلٹ پارٹی دونوں مذہبی جماعتوں پر تکیہ کرتی نظر آتی ہیں۔

Bangladesch - die Stunde der Islamisten
تصویر: DW/H. C. Ostermann

مبصرین کے مطابق آئندہ حکومت کے قیام میں مذہبی جماعتوں کا کردار فیصلہ کن ہو گا۔ سوال سوال یہ ہے کہ مذہبی جماعتیں کیوں اتنی اہم ہو گئی ہیں؟

مارچ 2005ء میں ایک انتہائی قدامت پسند مذہبی رہنما فضل الحق امینی نے کہا تھا کہ بنگلہ دیش میں کوئی جماعت مدرسوں کے تعاون کے بغیر اقتدار میں نہیں آ سکتی۔ بنگلہ دیش بھر میں ہزاروں مذہبی مدرسے قائم ہیں، جن میں پڑھنے والے طلبہ کی تعداد ڈیڑھ ملین کے قریب بنتی ہے۔ ان مدرسوں میں سے زیادہ تر دیوبندی مکتبہء فکر سے تعلق رکھتے ہیں، جو اسلام کی قدامت پسند تشریحات کا حامل کہلاتا ہے۔

خالدہ ضیا کو مزید سات برس قید کی سزا

’اپنا جسم تو میں راکھین ہی میں چھوڑ آئی‘: روہنگیا مہاجر خاتون

بنگلہ دیش میں عام انتخابات کا انعقاد 30 دسمبر کو ہو رہا ہے، جس میں گرینڈ الائنس اور جاتیو اوئیکو فرنٹ تاہم ان دونوں انتخابی اتحاد سخت گیر مسلمانوں پر بہت زیادہ تکیہ کرتے نظر آتے ہیں۔ اس سے لگتا یوں ہے کہ امینی کی کئی برس قبل کی گئی پیش گوئی درست ہوتی نظر آتی ہے۔

بنگلہ دیش میں ’سیاسی اسلام‘ کی ترویج سن 1975 تا 1990 کے درمیان فوجی آمریت کے دور میں دیکھی گئی، جہاں فوجی جرنیل، جن کے پاس حکومت کا قانونی جواز نہیں تھا، وہ مذہب کا استعمال کر کے طاقت کو دوام بخشتے رہے۔ بنگلہ دیش میں جہاں فوجی آمریتوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مذہب کو سیاست میں کھینچ لائے، وہیں سیاسی جماعتوں نے ان مذہبی گروہوں کو قبول بھی کیا۔

سن 1980ء سے عوامی لیگ اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی مذہب کو اپنی انتخابی فتوحات کے لیے استعمال کرتی آئی ہیں اور ان کا موقف یہ رہا ہے کہ یہ گروہ بڑی عوامی حمایت کے حامل ہیں۔ تاہم دستیاب اعداد و شمار اس موقف سے میل نہیں کھاتے۔

سن 1979ء میں بنگلہ دیش کے عام انتخابات میں فقط دو مذہبی جماعتوں نے حصہ لیا۔ جب کہ سن 1991ء میں یہ تعداد 17 ہو چکی تھی۔ اس کے بعد سن 1996 میں ایک اور مذہبی جماعت نے سیاست کے میدان میں اترنے کا اعلان کیا۔ تاہم سن 2001ء تک یہ تعداد گھٹ کر 11 رہ گئی اور سن 2008ء میں یہ تعداد صرف 10 تھی۔ سن 1991ء میں مذہبی جماعتوں کو پڑنے والے ووٹوں کی شرح 14 فیصد تھی، جو 2008ء میں صرف چھ فیصد رہی۔

بنگلہ دیش میں سب سے پرانی مذہبی پارٹی جماعت اسلامی پر بنگلہ دیشی الیکشن کمیشن انتخابات میں شرکت پر پابندی عائد کر چکا ہے۔ اس جماعت کے متعدد اہم اور اعلیٰ رہنما سن 1971ء میں پاکستان کے خلاف بنگلہ دیش کی آزادی کے تحریک میں جنگی جرائم کے مجرم قرار دیے جا چکے ہیں۔ تاہم دوسری جانب حفاظتِ اسلامی کے نام سے ایک اور مذہبی تنظیم میدان میں اتر چکی ہے، جو قدامت پسند سیاسی ایجنڈے کا نعرہ لگا رہی ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش میں قریب 70 فعال مذہبی جماعتیں ہیں، جن میں سے 10 الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہیں۔

یہ بات اہم ہے کہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت نیشنلسٹ پارٹی کی رہنما خالدہ ضیا کرپشن کے مقدمات میں جیل میں ہیں، جب کہ ان کی جماعت نے متعدد جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک بڑا انتخابی اتحاد قائم کیا ہے۔

اس مضمون کے مصنف علی ریاض امریکی ریاست ایلینوئے کی جامعہ میں سیاسیات کے پروفیسر ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں