1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

 'انتخابات سے پہلے مسلم لیگ ن کو دیوار سے لگا دیاگیا ہے ‘

بینش جاوید
28 جون 2018

پاکستان میں انتخابات اور سیاسی عمل کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ پاکستان کے الیکشن کمیشن کو سیاسی امیدواروں کی انتخابی مہم پر کیے جانے والے اخراجات پر کڑی نظر رکھنی چاہیے۔

Pakistan Gerichtshof in Islamabad Korruptionsvorwürfe Nawaz Sharif
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Pakistan Muslim League

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے احمد بلال محبوب نے پاکستان میں 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ عام انتخابات کے بعد پاکستان کے الیکشن کمیشن نے کافی مثبت اقدامات اٹھائے ہیں، جیسے کہ حلقہ بندیاں، انتخابی فہرستوں کی تیاری وغیرہ۔  وہ امید کرتے  ہیں کہ سوشل میڈیا، ٹی وی چینلز، بین الاقوامی مبصرین اور الیکشن کمیشن کی موجودگی میں مجموعی طور پر پاکستان میں شفاف انتخابات کا انعقاد ہوگا۔

انتخابات سے قبل بھی کیا انتخابی نظام شفاف رہا ہے؟

 اس سوال کا جواب دیتے ہوئے محبوب نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پلڈاٹ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق انتخابات سے قبل پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کو دیوار سے لگایا گیا ہے۔ محبوب نے پنجاب حکومت کی اورنج لائن منصوبے کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ یہ ایک بڑا منصوبہ تھا۔ لیکن اس منصوبے کو عدالت میں چیلنج کیا گیا، سپریم کورٹ نے اس کیس کا فیصلہ آٹھ ماہ تک محفوظ رکھا۔ اس طرح یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا۔ پلڈاٹ کے ہی ایک سروے کے مطابق پاکستانی ووٹرز کے لیے ترقیاتی کام وہ سب سے اہم چیز ہے، جس کی بنیاد پر وہ کسی سیاسی جماعت کو ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ اگر آج  اورنج ٹرین منصوبہ مکمل ہو چکا ہوتا تو عوام میں مسلم لیگ نون کا تاثر مختلف ہوتا۔

پاکستان مسلم لیگ نون کے مطابق ’پاکستان کی عدلیہ اور فوج‘ نے باقاعدہ مہم چلا کر مسلم لیگ نون کو دیوار سے لگایا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف مسلسل اپنے جلسوں میں پاکستانی فوج پر الزام عائد کرتے ہیں کہ ان کے دباؤ کے باعث انہیں عدلیہ نے نااہل قرار دیا۔ دوسری جانب محبوب کہتے ہیں کہ یہ تو انتخابات کے نتائج سے ہی پتا چلے گا کہ انتخابات سے قبل ’دھاندلی‘ انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوتی ہے یا نہیں۔

سیاسی جماعتوں کا منشور

پاکستان میں عام  انتخابات میں ایک ماہ سے کم وقت کا عرصہ رہ گیا ہے لیکن کسی بڑی سیاسی جماعت نے اپنا منشور پیش نہیں کیا ہے۔ بڑی جماعتوں میں سے پاکستان تحریک انصاف نے کچھ عرصہ قبل حکومت تشکیل دیےجانے کے بعد پہلے سو دن کا منصوبہ میڈیا کے سامنے پیش کیا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے ایسا کوئی ایجنڈا بھی ابھی تک پیش نہیں کیا ہے۔ اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے محبوب کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی انتخابات میں سیاسی منشور  اہمیت کا حامل نہیں ہے، بد قسمتی سےعوام اس میں دلچسپی نہیں لیتے۔ محبوب کہتے ہیں، ’’ہونا تو یہ چاہیے کہ گزشتہ انتخابات میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے پیش کیے جانے والے منشور پر عوام اور میڈیا وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں شامل سیاسی جماعتوں سے ان کے سابقہ منشور کے حوالے سے سوالات پوچھے  لیکن اس پر کوئی بحث نہیں ہو رہی۔ اس لیے بھی شاید سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی منشور کو جاری کرنے کے لیے اتنی پر عزم دکھائی نہیں دیتی۔‘‘

احمد بلال محبوب، صدر پلڈاٹتصویر: Mamoon

ٹکٹ دیے جانے کا معاملہ

حالیہ کچھ دنوں میں پارٹی ٹکٹ دینے کا معاملہ پاکستانی ٹی وی چینلز اور اخبارات میں کافی زیادہ اٹھایا جا رہا ہے۔ ناقدین کی رائے میں پارٹی ٹکٹ امیدواروں کی اہلیت کے بجائے ان کے سیاسی اثر و رسوخ اور دولت کی بنیاد پر دیے جارہے ہیں۔ محبوب نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’سیاسی جماعتوں کو امیدواروں کو ٹکٹ دیتے ہوئے زیادہ جمہوری ہونا چاہیے تھا۔ الیکشن کے قریب سیاسی جماعتوں میں کمیٹی بنائی گئی ہےجس نے دو سے تین ہفتوں میں درخواست گزاروں کے حوالے سے فیصلے کر لیے ہیں۔‘‘ محبوب کی رائے میں جمہوری معاشروں میں  ٹکٹ دینے کا عمل بہت پہلے شروع ہو جاتا ہے، ہر حلقے میں پارٹی کی مقامی تنظیم اس بارے میں فیصلہ کرتی ہے، بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ہر سیٹ کا فیصلہ مرکزی قیادت کرے۔

سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کی حالت

پلڈاٹ کے صدر کہتے ہیں کہ پاکستانی سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نہیں ہے۔ شخصیات ہی ان پارٹیو‌ں کو کنٹرول کرتی ہیں ووٹ بینک اور عوامی حمایت بھی شخصیات کو حاصل ہوتی ہے نہ کہ پارٹی کے منشور کو۔ ان کا کہنا ہے،’’  ہمارے سیاسی کلچر میں وقت کے ساتھ تبدیلی آئے گی۔ پارٹیاں وقت کے ساتھ جمہوری ہوں گی۔ اگر سیاسی نظام چلتا رہتا تو ہمارا نظام جمہوری ہو جاتا لیکن مداخلت نے پارٹیوں کو بھی غیر جمہوری بنا دیا ہے۔‘‘

انتخابی مہم پر کیے جانے والے اخراجات

احمد بلال محبوب کی رائے میں اس وقت الیکشن کمیشن کو امیدواروں کی سیاسی مہم پر کیے جانے والے انتخابات پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ عام طور پر  دولت مند لوگ جیت جاتے ہیں، وہ طاقت حاصل کرنے کے بعد اپنا خرچ کیا ہوا پیسہ وصول کرنے کے لیے مالی بدعنوانیوں کا سہارا لیتے ہیں اور یوں پورا نظام کرپٹ ہو جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے بیس لاکھ اور قومی اسمبلی کی نشست کے لیے چالیس لاکھ  کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے۔ محبوب کہتے ہیں کہ اگر کوئی امیدوار اس سے زیادہ رقم خرچ کرے تو الیکشن کمیشن کو فوری طور پر ایکشن لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا،’’  الیکشن کمیشن نے ہر  ضلع میں مانیٹرنگ کمیٹیاں بنائی ہوئی ہیں ان کمیٹیوں کو متحرک ہونا چاہیے تاکہ وہ ہرطضلع میں دیکھ سکیں کہ انتخابی قوانین کی خلاف وزری تو نہیں ہو رہی۔‘‘ محبوب کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ وہ امیدواروں کی جانب سے ان کے مالی وسائل اور اثاثوں کے بارے میں جمع کرائے گئے کوائف کا جائزہ لے گی لہذا اگر کسی نے غلط بیانی کی ہو تو عدالت سے پہلے الیکشن کمیشن کو اس کا ایکشن لینا چاہیے۔   

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں