انتخابات میں حصہ لینے کے لیے تیار ہوں، سوچی
10 جنوری 2012ینگون سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق سوچی اپریل میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں پارلیمان کی رکنیت کے لیے امیدوار ہوں گی اور یوں یہ ضمنی انتخابی عمل تاریخی اہمیت کا حامل ہو گا۔ سوچی نے گزشتہ برس کہا تھا کہ وہ ملکی پارلیمان کی رکنیت کے لیے الیکشن میں حصہ لیں گی مگر بعد میں وہ اپنے اس مؤقف سے پیچھے ہٹ گئی تھیں۔
میانمار میں نومبر 2010 ء میں ہونے والے عام انتخابات کے موقع پر سوچی اپنے گھر پر نظر بند تھیں اور ان کی پارٹی قومی لیگ برائے جمہوریت نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔
میانمار میں آئندہ انتخابات کی صورت میں گزشتہ بیس برسوں میں ایسا پہلی مرتبہ ہو گا کہ حکمران فوجی حکومت کی بجائے جمہوری حکومت برسر اقتدار آئے گی۔ اگرچہ میانمار میں جمہوری حکومت کے ملٹری سے روابط برقرار رہیں گے تاہم اس تازہ پیش رفت کے نتیجے میں وہاں عشروں سے جاری سیاسی تناؤ میں کمی واقع ہونے کی قوی امید ہے۔
انتخابات میں حصہ لینے کے فیصلے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہےکہ نوبل امن انعام یافتہ سوچی حالیہ اصلاحات پر اعتماد کرتی ہیں۔ اس اصلاحاتی پروگرام کے تحت فوجی حکومت کی طرف سے سوچی کے ساتھ لیبر یونینز کی بحالی اور مزید آزادی صحافت کا وعدہ کیا گیا تھا۔
پارٹی کے ایک ترجمان نیان وِن کا کہنا ہےکہ سوچی کی طرف سے انتخابی عمل میں حصہ لینے کا اعلان پارٹی میٹینگ کے دوران کیا گیا اور وہ ینگون کے مضافاتی علاقے کاہمو سے الیکشن لڑیں گی۔ ینگون میانمار کا سب سے بڑا اور خاتون اپوزیشن رہنما سوچی کا آبائی شہر ہے۔
گزشتہ ہفتے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو انٹرویو دیتے ہوئے سوچی نے اس امر کی تصدیق نہیں کی تھی کہ آیا وہ انتخابات میں حصہ لیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی فیصلے کا اعلان رواں ماہ کے اواخر میں کیا جائے گا۔ اس انٹرویو میں انہوں نے حکومتی اصلاحات پر محتاط امید کا اظہار بھی کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی بھی کچھ رکاوٹیں اور خطرات موجود ہیں، جن کا دور کیا جانا ضروری ہے۔
اپریل میں ہونے والے انتخابات میں اگر سوچی کی جماعت تمام 48 سیٹیں بھی حاصل کر لیتی ہے، تب بھی پارلیمان میں اس جماعت کی طاقت انتہائی کم ہو گی۔
ایوان زیریں کی 440 سیٹوں میں سے فوج کو 100 سیٹوں کی ضمانت دی گئی ہے جبکہ ایوان بالا کی 224 سیٹوں میں سے 56 سیٹیں فوج کو دی جائیں گی۔ جبکہ ملک کی ایک اور بڑی سیاسی جماعت کو بھی فوج کی حمایت حاصل ہے۔
سن 1990ء کے عام انتخابات میں سوچی کی جماعت کو بھاری اکثریت ملی تھی تاہم ملکی فوج نے نتائج قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: عاطف بلوچ