انتخابات، کارروائی سے نہیں روکیں گے، اسرائیلی وزیر اعظم
10 مارچ 2019
اسرائیلی فورسز نے غزہ پٹی سے راکٹ فائر کرنے کے جواب میں حماس جنگجوؤں کے ٹھکانوں پر تازہ حملے کیے ہیں۔ اسرائیل میں الیکشن نزدیک ہی ہیں اور خیال کیا جا رہا ہے کہ نیتن یاہو اس تناؤ کے باعث اقتدار سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔
اشتہار
اسرائیلی فوج نے آج اتوار 10 مارچ کو غزہ پٹی میں قائم حماس جنگجوؤں کے مبینہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ حماس سے راکٹ فائر کیے جانے کے بعد اسرائیلی فضائیہ نے یہ کارروائی کی۔ اسرائیلی فوج کے ٹوئٹر ہینڈل کی ایک پیغام کے مطابق ہفتے کی رات اسرائیلی سرزمین پر راکٹ حملے کے جواب میں یہ ردعمل ظاہر کیا گیا، ’’جوابی کارروائی میں حماس جنگجوؤں کے غزہ میں واقع متعدد اہداف اور دو گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا۔‘‘
اسرائیلی فضائیہ نے یہ تازہ کارروائی ایک ایسے وقت میں کی ہے، جب غزہ پٹی سے متصل اسرائیلی سرحد پر کشیدگی جاری ہے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق حماس کے حامی دھماکا خیز مواد سے بھرے غبارے اسرائیلی سرزمین کی طرف چھوڑ رہے ہیں، جس کے جواب میں اسرائیلی فوج پہلے بھی کارروائی کر چکی ہے۔
جمعے کے دن ہی ایسے ایک پرتشدد واقعے میں اسرائیل اور غزہ کی سرحد پر مظاہرین اور اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے مابین ہوئے ایک تصادم کے نتیجے میں ایک تئیس سالہ فلسطینی ہلاک ہو گیا تھا۔ فلسطینی ذرائع کے مطابق اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے یہ نوجوان مارا گیا۔ اس دوران تقریبا چالیس دیگر فلسطینی مظاہرین زخمی بھی ہوئے۔
دوسری طرف اسرائیل میں الیکشن کی آمد آمد ہے۔ اس حالیہ کشیدگی کے باعث متعدد سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اس انتخابی عمل میں عوامی مینڈیٹ سے محروم ہو سکتے ہیں۔ نیتن یاہو پر ایسے الزامات بھی عائد کیے جا رہے ہیں کہ وہ اپنی انتخابی مہم میں قوم پرستوں کی حمایت حاصل کرتے ہوئے ’عرب افراد کے خلاف نفرت انگیزی‘ کا باعث بن رہے ہیں۔ ساتھ ہی اسرائیلی وزیر اعظم کو بدعنوانی کے الزامات کا سامنا بھی ہے۔
کچھ اسرائیلی ناقدین کے مطابق اگر موجودہ صورتحال میں غزہ سے کیے گئے کسی بھی حملے کے نتیجے میں کسی اسرائیلی کی ہلاکت ہوتی ہے، تو نیتن یاہو یہ الیکشن ہار جائیں گے۔ تاہم اسرائیلی وزیر اعظم نے اتوار کے دن ہی کہا کہ الیکشن کی وجہ سے اسرائیلی سکیورٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
نیتن یاہو نے واضح کیا، ’’میں سن رہا ہوں کہ غزہ میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ ہم الیکشن مہم میں ہیں، اس لیے بڑے پیمانے پر کسی فوجی آپریشن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔ میں حماس کو تجویز دیتا ہوں کہ وہ ایسا نہ سوچیں۔ ہم اپنے ملک کی سکیورٹی کی خاطر ہر ممکن کارروائی کے لیے ہمہ دم تیار ہیں۔‘‘
ع ب / ا ب ا / خبر رساں ادارے
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔