1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں آئندہ انتخابات کے مستقبل پر سوالیہ نشان

15 جنوری 2024

سینیٹر دلاور خان کی طرف سے سینیٹ کے چیئرمین کو خط لکھے جانے اور انتخابات کے التوا پر دو اور قراردادوں کے سامنے آنے پر کئی حلقوں میں بحث چھڑ گئی ہے۔

Pakistan Lahore | Plakat vor der Rückkehr von Ex-Premierminister Nawaz Sharif
تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

دلاور خان نے آج یہ خط  الیکشن کے التوا کے حوالے سے قرارداد پر عمل درآمد نہ ہونے کے بعد چیئرمین سینیٹ کو لکھا جبکہ دو اور سینیٹرز نے انتخابات کو ملتوی کرنے کے حوالے سے قرارداد یں جمع کرائی ہیں۔ کئی حلقوں میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ آخر التوا کون چاہتا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ جمعہ کو سینیٹر ہدایت اللہ نے  الیکشن  کے التوا کے حوالے سے سینیٹ میں قرارداد جمع کرائی جبکہ اتوار کو سینیٹر خلیل الرحمٰن نے اسی مقصد کے لیے قرارداد جمع کرائی۔ دلاور خان نے خط میں لکھا  کہ پانچ جنوری کو سینیٹ کی طرف سے قرارداد پاس ہونے کے باوجود الیکشن کے التوا کے حوالے سے کوئی ٹھوس ایکشن نہیں لیا گیا۔

واضح ر ہے کہ پانچ جنوری کے بعد جماعت اسلامی اور دوسری جماعتوں نے انتخابات کو وقت پر منعقد کرانے کے حوالے سے قرارداد پاس کرائی تھی۔

 گو کے الیکشن کمیشن  آف پاکستان نے اپنے ایک بیان میں الیکشن کے التوا کو خارج از امکان قرار دیا ہے، ان تازہ قراردادوں اور دلاور خان کے خط کے بعد ملک میں ایک بار پھر الیکشن کے مستقبل کے حوالے سے بحث  شروع ہو گئی ہے۔

قراردادوں کے پیچھے کون ہے؟

نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر محمد اکرم بلوچ کا کہنا ہے کہ کچھ سینیٹرز کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کے اسٹیبلشمنٹ سے بڑے قریبی رابطے رہے ہیں۔ محمد اکرم بلوچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بظاہر ایسا ہی لگتا ہے کہ کچھ طاقتور قوتیں انتخابات وقت پر نہیں چاہتی کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ کہیں کہیں نتیجہ ان کی توقع کے برعکس نہ آ جائے۔‘‘

خیبرپختونخوا میں حالات سنگین ہوتے جا رہے ہیںتصویر: Saood Rehman/EPA/picture alliance

محمد اکرم بلوچ کے مطابق اسی لیے کچھ سینیٹرز کو اگے کیا جا رہا ہے تاکہ انتخابات کو ملتوی کیا جا سکے۔

پاکستان مسلم لیگ نون کی ایک اتحادی جماعت کے سینیٹر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' نون لیگ بھی انتخابات نہیں چاہتی کیونکہ اسے معلوم ہے کہ پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف بہت مضبوط پوزیشن میں ہے اور یہ کہ اس کو بری طرح شکست ہو سکتی ہے۔ اسی لیے اس نے ابھی تک انتخابی مہم بھی شروع نہیں کی ہے۔‘‘

میری پارٹی کے خلاف مکمل کریک ڈاؤن جاری ہے، عمران خان

02:37

This browser does not support the video element.

’التوا نہیں کم ٹرن آوٹ چاہیے‘

تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد خان کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی یہ خواہش ضرور تھی کہ انتخابات  ملتوی ہوں لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد شاید التوا کی ضرورت نہ پڑے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' کچھ طاقتور حلقے اب بھی یہ چاہتے ہیں کہ انتخابات کے حوالے سے ابہام رہے تاکہ انتخابی مہم صحیح طور پر چل نہ سکے اور انتخابات میں بہت کم ٹرن آوٹ ہو۔‘‘

 توصیف احمد خان کے مطابق زیادہ ٹرن آوٹ کی صورت میں پی ٹی آئی بہت نشستیں حاصل کر سکتی ہے۔ '' اور یہ بات اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی۔ اسی لیے ابہام پیدا کیا جارہا ہے۔‘‘

الیکشن کا التوا کون چاہتا ہے؟تصویر: Raja I. Bahader/Pacific Press/IMAGO

التوا اب ممکن نہیں

پانچ جنوری کو پیش کی جانے والی قرارداد کو بلوچستان عوامی پارٹی کی طرف سے بھرپور تائید حاصل تھی لیکن بلوچستان عوامی پارٹی کے ایک مرکزی رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر خالد احمد مگسی کا کہنا ہے کہ وہ الیکشن کا التوا نہیں چاہتے۔ خالد احمد مگسی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اب الیکشن کا التوا بہت مشکل ہے کیونکہ لوگ اپنے اپنے حلقوں میں کام کر رہے ہیں۔ میں بھی اپنے حلقے میں موجود ہوں۔‘‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے وہ سینیٹرز جنہوں نے اس قرارداد کی حمایت کی تھی کیا ان کے خلاف ایکشن نہیں ہونا چاہیے، تو خالد احمد مگسی نے کہا، ''یہ میں نے آپ کو اپنی ذاتی رائے دی ہے یقیناً میں کوئٹہ جا کر پارٹی کے اجلاس میں اس پر بات کروں گا۔‘‘

کرکٹ سے ریٹائرمنٹ تا سیاسی نااہلی، عمران خان کا سیاسی سفر

05:47

This browser does not support the video element.

پی پی پی کا موقف

خیال کیا جاتا ہے کہ اس وقت پاکستان کی سیاسی منظر نامے پر صرف  پاکستان  پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ہی انتخابی مہم چلاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ انتخابات کے التوا کی کسی بھی صورت میں بھرپور مخالفت کرتی ہے۔ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی سابق سینیٹر سحر کامران نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس سے پہلے بھی فروری میں الیکشن ہوئے اور اس سے پہلے بھی موسم اور دہشت گردی کے مسائل تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انتخابات ملتوی کر دیے جائیں تو کیا گارنٹی ہے کہ تین مہینے بعد امن و امان، معیشت اور دوسرے معاملات حل ہو جائیں گے۔‘‘

سحر کامران کے مطابق، ’’پاکستان کو سیاسی استحکام کی شدید ضرورت ہے اور ملک میں یہ سیاسی استحکام انتخابات کے بغیر کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ لہذا انتخابات ہر حالت میں ہونے چاہییں اور جمہوری عمل میں کوئی تعطل نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

کراچی میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال خاص طور سے قابل غورتصویر: Yousuf Khan/AA/picture alliance

’التوا نہیں سکیورٹی چاہتے ہیں‘

جمیعت علماء اسلام کی شوری کے رکن  محمد جلال الدین ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ جمعیت انتخابات کا التوا نہیں چاہتی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''تاہم ہم یہ ضرور چاہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن، اکرم درانی اور دوسرے مرکزی رہنماؤں کے لیے سکیورٹی فراہم کی جائے تاکہ ہم موثر طریقے سے انتخابی مہم چلا سکیں۔‘‘

نون لیگ اس تاثر کی سخت تردید کرتی ہے کہ وہ شکست کے خوف سے انتخابات نہیں چاہتی۔

آٹھ فروری کو انتخابات چاہتے ہیں‘

نون لیگ کے ایک مرکزی رہنما اور سابق وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا ہے کہ نون لیگ الیکشن کے التوا کی مخالفت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہم آٹھ فروری کو الیکشن چاہتے ہیں جیسا کہ سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اعلان کیا ہے۔‘‘

انہوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ نون لیگ کو انتخابات میں شکست ہوگی۔ ان کا کہنا تھا، ''حقیقت یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو بہت عبرت ناک شکست سے دوچار ہونا پڑے گا۔‘‘

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں