پاکستان میں انتخابات کے بعد نئی حکومت کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا جن میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، انتہا پسندی اور کئی دہائیوں سے سول حکومت اور فوج کے مابین جاری تناؤ جیسے مسائل سر فہرست ہیں۔
اشتہار
پچیس جولائی کے روز ہونے والے عام انتخابات جو بھی سیاسی جماعت جیتے، ایک بات طے ہے کہ انہیں حکومت بنانے کے فوری بعد کئی مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔ پاکستان کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں۔
دہشت گردی کا عفریت
گزشتہ برسوں کے دوران دہشت گردی کے خلاف پاکستانی سکیورٹی فورسز نے کئی آپریشنز کیے جن کے بعد ملک کی سکیورٹی صورت حال نمایاں طور پر بہتر ہو چکی ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں طویل عرصے سے خبردار کرتے رہے ہیں کہ پاکستان میں شدت پسندی پھیلنے کی حقیقی وجوہات کا تدارک نہیں کیا جا رہا اس لیے دہشت گرد کسی بھی وقت دوبارہ بڑے حملے شروع کر سکتے ہیں۔
حال ہی میں مستونگ میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔ یہ واقعہ پاکستانی تاریخ کا دوسرا سب سے زیادہ خونریز ترین دہشت گردانہ حملہ تھا جس میں ڈیڑھ سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق شدت پسند گروہ فوجی آپریشنز میں بھاری نقصان اٹھانے کے بعد دوبارہ منظم ہونے کی کوششوں میں ہیں۔
مسلسل بگڑتی اقتصادی صورت حال
سکیورٹی مسائل کے علاوہ ملک کی اقتصادی صورت حال بھی نئی حکومت کے لیے ایک چیلنج ثابت ہو گی۔ ادائیگیوں کے توازن کا مسئلہ شدید ہونے کے بعد ایسے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کو ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج لینے کی ضرورت پڑ جائے گی۔
مرکزی بینک زر مبادلہ کے ذخائر مسلسل استعمال میں لا رہا ہے اور روپے کی قدر صرف رواں ہفتے کے دوران مزید پانچ فیصد کم ہو چکی ہے۔ پاکستان طویل عرصے سے غیر ملکی مصنوعات کی درآمدات میں اضافہ کر رہا ہے اور تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث بھی ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
بڑھتی ہوئی آبادی کا مسئلہ
عالمی بینک اور حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی نہ ہونے کے سبب آبادی میں اضافے کی شرح ایشیا کے کئی دیگر ممالک کی نسبت زیادہ ہے۔ سن 1960 سے لے کر اب تک ملکی آبادی میں پانچ گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ گزشتہ برس کی مردم شماری کے مطابق ملکی آبادی 207 ملین تک پہنچ چکی ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث اقتصادی اور سماجی سطح پر مثبت اقدامات کے اثرات بھی زائل ہو رہے ہیں۔ اس صورت حال میں ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ قدامت پسند معاشرے میں حکومت کے لیے خاندانی منصوبہ بندی پر گفتگو کرنا بھی ایک مشکل کام ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر آبادی پر قابو نہ پایا گیا تو پانی سمیت ملک کے قدرتی وسائل اتنی بڑی آبادی کے لیے ناکافی ہو جائیں گے۔
سن 2030 میں پاکستانی شہروں کی متوقع آبادی
اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2047 میں پاکستان کے دیہی اور شہری علاقوں میں آباد انسانوں کی تعداد برابر ہو جائے گی۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے بارہ برس بعد پاکستانی شہروں کی آبادی کتنی ہو گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1- کراچی
کراچی قیام پاکستان کے بعد سے اب تک آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ سن 2018 میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ چون لاکھ ہے جو سن 2030 تک دو کروڑ بتیس لاکھ ہو جائے گی۔ اقوام متحدہ کے مطابق تب کراچی آبادی کے اعتبار سے دنیا کا تیرہواں سب سے بڑا شہر بھی ہو گا۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
2- لاہور
پاکستانی صوبہ پنجاب کا دارالحکومت لاہور ایک کروڑ سترہ لاکھ نفوس کے ساتھ ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ سن 2030 تک لاہور کی آبادی قریب دو کروڑ ہو جائے گی۔ پچاس کی دہائی میں لاہور کے شہریوں کی تعداد آٹھ لاکھ چھتیس ہزار تھی اور وہ تب بھی پاکستان کا دوسرا بڑا شہر تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
3- فیصل آباد
فیصل آباد پاکستان کا تیسرا بڑا شہر ہے اور بارہ برس بعد بھی آبادی کے اعتبار سے یہ اسی نمبر پر رہے گا۔ تاہم فیصل آباد کی موجودہ آبادی 3.3 ملین ہے جو اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سن 2030 تک قریب پانچ ملین ہو جائے گی۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
4- پشاور
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی موجودہ آبادی بھی دو ملین سے کچھ زائد ہے اور اس وقت یہ ملک کا چھٹا بڑا شہر بھی ہے۔ تاہم سن 2030 میں اس شہر کی آبادی قریب تینتیس لاکھ نفوس پر مشتمل ہو گی اور یہ ملک کا چوتھا بڑا شہر بن جائے گا۔
تصویر: DW/F. Khan
5- گوجرانوالہ
سن 1950 میں گوجرانوالہ ایک لاکھ اٹھارہ ہزار کی آبادی کے ساتھ پاکستان کا نواں سب سے بڑا شہر تھا تاہم اب یہاں دو ملین سے زائد لوگ بستے ہیں ۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق بارہ برس بعد اس شہر کی آبادی بتیس لاکھ چونسٹھ ہزار تک پہنچ جائے گی اور یہ ملک کا پانچواں بڑا شہر ہو گا۔
تصویر: FAROOQ NAEEM/AFP/Getty Images
6- راولپینڈی
اکیس لاکھ چھپن ہزار کی آبادی کے ساتھ راولپنڈی پاکستان کا چوتھا بڑا شہر ہے۔ بارہ برس بعد راولپنڈی کی آبادی تین ملین سے زائد ہو جائے گی لیکن تب یہ ملک کا چھٹا بڑا شہر ہو گا۔ 1950ء میں راولپنڈی کی آبادی دو لاکھ تینتیس ہزار تھی اور تب آبادی کے اعتبار سے یہ ملک کا تیسرا بڑا شہر تھا۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/PPI
7- ملتان
ملتان جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا اور ملک کا ساتواں بڑا شہر ہے جس کی موجودہ آبادی قریب دو ملین ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سن 2030 میں ملتان کی آبادی قریب انتیس لاکھ ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/SS Mirza
8- حیدر آباد
صوبہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر حیدر آباد سترہ لاکھ بیاسی ہزار نفوس کے ساتھ اس برس ملک کا آٹھواں بڑا شہر ہے۔ سن 2030 تک اس شہر کی آبادی چھبیس لاکھ تیس ہزار ہو جائے گی اور وہ تب بھی ملک کا آٹھواں بڑا شہر ہی ہو گا۔
تصویر: Imago/Zumapress
9- اسلام آباد
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی موجودہ آبادی ایک ملین سے زائد ہے تاہم اگلے بارہ برسوں میں سولہ لاکھ بہتر ہزار نفوس کے ساتھ یہ شہر ملک کا نواں بڑا شہر بن جائے گا۔ رواں صدی کے آغاز میں اسلام آباد کے شہریوں کی تعداد پانچ لاکھ انہتر ہزار تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M.Reza
10- کوئٹہ
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کی آبادی رواں برس ہی ایک ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔ بارہ برس بعد کوئٹہ کی آبادی سولہ لاکھ سے تجاوز کر جائے گی۔ جب کہ سن 1950 میں کوئٹہ کی آبادی 83 ہزار تھی۔
تصویر: shal.afghan
11- بہاولپور
پاکستانی صوبہ پنجاب کے جنوبی شہر بہاولپور کی آبادی بھی اگلے چند برسوں میں ایک ملین سے زیادہ ہو جائے گی اور سن 2030 تک یہاں کی آبادی بارہ لاکھ چھیالیس ہزار نفوس تک پہنچ جائے گی۔ رواں برس کی آبادی سات لاکھ چھیانوے ہزار ہے جب کہ 1950 میں بہاولپور کی آبادی محض بیالیس ہزار تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
12- سیالکوٹ
صوبہ پنجاب ہی کے شہر سیالکوٹ کی آبادی بھی اگلے بارہ برسوں میں ایک ملین سے زائد ہو جائے گی۔ اس برس تک سیالکوٹ چھ لاکھ چھہتر ہزار نفوس کے ساتھ ملک کا تیرہواں بڑا شہر ہے۔ 1950ء میں سیالکوٹ کی آبادی ایک لاکھ پچپن ہزار تھی۔
تصویر: Reuters
13- سرگودھا
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی صوبہ پنجاب کی آبادی بھی سن 2030 میں ایک ملین سے کچھ کم (نو لاکھ نوے ہزار) تک پہنچ جائے گی۔ اس برس یعنی 2018ء میں سرگودھا کی آبادی چھ لاکھ 77 ہزار ہے اور یہ ملک کا بارہواں بڑا شہر ہے۔ سن 1950 میں یہاں صرف چوہتر ہزار شہری مقیم تھے۔
تصویر: Reuters/Stringer
14- لاڑکانہ
صوبہ سندھ ہی کے شہر لاڑکانہ کی موجودہ آبادی پانچ لاکھ چھ ہزار نفوس پر مشتمل ہے جو اب سے بارہ برس بعد سات لاکھ بیاسی ہزار تک پہنچ جائے گی۔ 1950 میں لاڑکانہ کی آبادی محض تینتیس ہزار تھی۔
تصویر: AP
15- سکھر
سن 2030 میں پاکستان کے صوبہ سندھ میں واقع شہر سکھر کی آبادی سات لاکھ ساٹھ ہزار تک پہنچ جائے گی۔ سن 1950 میں اس شہر کی آبادی محض چھہتر ہزار نفوس پر مشتمل تھی جب کہ رواں برس سکھر کی آبادی پانچ لاکھ چودہ ہزار ہے۔
تصویر: DW
15 تصاویر1 | 15
پانی کی قلت کا مسئلہ
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر پاکستان نے پانی کی قلت کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہ کیے تو اگلے چند برسوں میں پاکستان بحرانی صورت حال کا شکار ہو جائے گا۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں ہمالیہ کے گلیشیئر بھی ہیں اور مون سون کی بارشیں بھی کافی ہوتی ہیں۔ لیکن ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیموں کی تعداد ناکافی ہے۔ ملک بھر میں صرف تین بڑے ڈیم ہیں، اس کے مقابلے میں کینیڈا اور جنوبی افریقہ میں ایک ہزار سے زائد ڈیم ہیں۔ ڈیموں کی تعمیر کا معاملہ اکثر تنازعات کا سبب بھی بن جاتا ہے لیکن نئی حکومت کو اس ضمن میں فوری طور کام کرنا پڑے گا اور اس حوالے سے عوام کو معاملے کی نزاکت سے آگاہ کرنے کی بھی ضرورت پڑے گی۔
فوجی اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات
پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں نصف سے زیادہ مدت تک فوج نے براہ راست ملک کی باگ ڈور سنبھالے رکھی۔ سن 2013 میں پہلی مرتبہ اقتدار ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو منتقل ہوا تھا جس کے بعد ملک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہونے کی امید کی جا رہی تھی۔
تاہم حالیہ انتخابات سے پہلے ہی صورت حال تیزی سے تبدیل ہوتی چلی گئی۔ تین مرتبہ ملکی وزیر اعظم بننے والے نواز شریف اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تناؤ کے باعث سول-ملٹری تعلقات ایک مرتبہ پھر غیر متوازن ہو چکے ہیں۔ نئی منتخب حکومت کو بھی ان تعلقات میں توازن رکھتے ہوئے ملکی مسائل کا حل تلاش کرنے کا بیڑا اٹھانا پڑے گا۔
ش ح / ا ا (اے ایف پی)
پاکستانی سیاست: تاریخ کے آئینے میں
پاکستانی تاریخ میں کئی بحران سامنے آتے رہے۔ کبھی فوج براہ راست اقتدار میں رہی اور کبھی بلواسطہ۔ کئی منتخب حکومتیں اپنی مدت مکمل نہ کر پائیں۔ پاکستان کی پیچیدہ سیاسی تاریخ کے کچھ اہم واقعات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1947 – آزادی اور پہلا جمہوری دور
برطانیہ سے آزادی کے بعد ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور مسلم اکثریتی علاقوں پر مبنی نیا ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح ملک کے پہلے گورنر جنرل بنے اور لیاقت علی خان کو ملکی وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ ٹی بی کے مرض میں مبتلا محمد علی جناح قیام پاکستان کے ایک برس بعد ہی انتقال کر گئے۔
تصویر: AP
1951
وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا۔ وہ شہر کے کمپنی باغ میں منعقدہ ایک جلسے میں شریک تھے جہاں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا اور انہیں دو گولیاں لگیں۔ پولیس نے حملہ آور کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا۔ لیاقت علی خان کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ اس بحرانی صورت حال میں خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔
تصویر: OFF/AFP/Getty Images
1958 – پہلا فوجی دور
پاکستان کا پہلا آئین سن 1956 میں متعارف کرایا گیا تاہم ملکی صدر اسکندر مرزا نے دو سال بعد 1958 میں آئین معطل کر کے مارشل لا لگا دیا۔ کچھ دنوں بعد ہی فوجی سربراہ جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو اقتدار سے برطرف کر دیا اور خود صدر بن گئے۔ یوں پہلی مرتبہ پاکستان میں اقتدار براہ راست فوج کے پاس چلا گیا۔
تصویر: imago stock&people
1965
ایوب خان نے پاکستان میں امریکا جیسا صدارتی نظام متعارف کرایا اور سن 1965 میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔ وہ پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے صدارتی امیدوار بن گئے اور ان کا مقابلہ بانی پاکستان کی بہن فاطمہ جناح سے ہوا۔ فاطمہ جناح کو زیادہ ووٹ ملے لیکن ایوب خان ’الیکٹورل کالج‘ کے ذریعے ملکی صدر بن گئے۔
تصویر: imago stock&people
1969
انتخابات میں فاطمہ جناح کی متنازعہ شکست اور بھارت کے ساتھ 1965 کی جنگ کے بعد ایوب خان کی ساکھ کافی متاثر ہوئی اور ان کے خلاف احتجاجی تحریک شروع ہوئی۔ ایوب خان نے اقتدار جنرل یحیی خان کے حوالے کر دیا اور ملک میں ایک مرتبہ پھر مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1970
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ مشرقی پاکستان کے رہنما شیخ مجیب الرحمان کی عوامی جماعت نے قومی اسمبلی کی کل تین سو نشستوں میں سے 160 نشستیں حاصل کر لیں جب کہ ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت 81 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ تاہم عوامی لیگ کو اقتدار نہیں سونپا گیا۔
تصویر: Journey/M. Alam
1971
یہ تنازعہ شدت اختیار کر گیا اور پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کر دیا۔ بھارت بھی اس تنازعے میں کود پڑا اور جنگ کے بعد پاکستان تقسیم ہو گیا۔ مشرقی پاکستان کی جگہ ایک نیا ملک بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا۔
تصویر: Journey/R. Talukder
1972 – دوسرا جمہوری دور
مارشل لا ختم کر دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو ملکی صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے اسی برس ملکی جوہری پروگرام کا آغاز بھی کیا۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
1973
پاکستان میں نیا ملکی آئین تشکیل پایا جس کے مطابق ملک میں پارلیمانی جمہوریت متعارف کرائی گئی۔ ایوان زیریں اور ایوان بالا تشکیل دی گئی اور حکومت کی سربراہی وزیر اعظم کے عہدے کو دی گئی۔ بھٹو صدر کی بجائے وزیر اعظم بن گئے۔ سن 1976 میں بھٹو نے جنرل ضیا الحق کو ملکی فوج کا سربراہ مقرر کیا جو بعد میں ان کے لیے مصیبت بن گئے۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1977 – دوسرا فوجی دور
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا جن میں بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی۔ بھٹو کے خلا ف انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ صورت حال کا فائدہ اٹھاتے جنرل ضیا الحق نے بھٹو کو اقتدار سے ہٹا کر ملکی آئین معطل کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا لگا دیا۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1978
جنرل ضیا الحق نے آرمی چیف کے عہدے کے ساتھ ملکی صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ سن 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کو ’قتل کی سازش‘ کے ایک مقدمے میں قصور وار قرار دتیے ہوئے پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ ضیا الحق نے اسی برس ملک میں حدود آرڈیننس جیسے متنازعہ قوانین متعارف کرائے اور ’اسلامائزیشن‘ کی پالیسی اختیار کی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
1985
ملک میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئے۔ مارشل لا ہٹا دیا گیا اور جنرل ضیا کو آٹھ سال کی مدت کے لیے صدر جب کہ محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ اس سے ایک برس قبل جنرل ضیا نے اپنی ’اسلامائزیشن‘ پالیسی کے بارے میں ریفرنڈم کرایا تھا اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ 95 فیصد عوام نے اس کی حمایت کی تھی۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
1988
بڑھتے ہوئے اختلافات کے باعث ضیا الحق نے آئینی شق اٹھاون دو بی کا استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم جونیجو کو برطرف اور اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ انہوں نے نوے دن کے اندر انتخابات کے انعقاد کا پھر سے وعدہ بھی کیا تاہم اسی برس سترہ اگست کے روز جہاز کے حادثے میں ضیا الحق اور دیگر اکتیس افراد ہلاک ہو گئے۔
تصویر: PHILIPPE BOUCHON/AFP/Getty Images
1990
پاکستانی صدر غلام اسحاق خان نے بدعنوانی اور نااہلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کر دی اور اسمبلیاں بھی تحلیل کر دیں۔ نئے انتخابات کا انعقاد کرایا گیا اور ضیا دور میں سیاست میں اترنے والے نواز شریف ملکی وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ اگلے برس اسمبلی نے ’شریعہ بل‘ منظور کیا اور اسلامی قوانین ملکی عدالتی نظام کا حصہ بنا دیے گئے۔
تصویر: imago/UPI Photo
1993
صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف حکومت کو بھی بدعنوان قرار دیتے ہوئے برطرف کر دیا۔ خود انہوں نے بھی بعد ازاں صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ عام انتخابات کا انعقاد ہوا اور بینظیر بھٹو دوسری مرتبہ ملکی وزیر اعظم بنیں۔ پیپلز پارٹی ہی کے فاروق لغاری ملکی صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Frazza
1996
صدر لغاری نے اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور بینظیر حکومت کو برطرف کر دیا۔ ایک دہائی کے اندر پاکستان میں چوتھی مرتبہ عام انتخابات کا انعقاد کرایا گیا۔ نواز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور وہ دوسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
1998
پاکستان نے صوبہ بلوچستان میں واقع چاغی کے پہاڑوں میں جوہری ہتھیاروں کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس سے چند روز قبل بھارت نے بھی جوہری ہتھیاروں کا تجربہ کیا تھا۔ ایٹمی تجربوں کے بعد عالمی برادری نے پاکستان پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔
تصویر: picture alliance / dpa
1999 – فوجی اقتدار کا تیسرا دور
کارگل جنگ کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ان کے عہدے سے برطرف کر کے جنرل ضیا الدین عباسی کو ملکی فوج کا سربراہ تعینات کر دیا۔ تاہم فوج نے فوری طور پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے نواز شریف کو گرفتار کر لیا۔ جنرل پرویز مشرف نے ملکی اقتدار سنبھال لیا۔
تصویر: SAEED KHAN/AFP/Getty Images
2000
پاکستان کی سپریم کورٹ نے مارشل لا کی توثیق کر دی۔ اسی برس شریف خاندان کو جلاوطن کر کے سعودی عرب بھیج دیا گیا۔ جنرل مشرف سن 2001 میں پاکستان کے صدر بن گئے۔ انہوں نے آرمی چیف کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
2002
جنرل پرویز مشرف ایک ریفرنڈم کے بعد مزید پانچ برس کے لیے ملکی صدر بن گئے۔ اسی برس عام انتخابات بھی ہوئے جن میں پاکستان مسلم لیگ ق نے کامیابی حاصل کی۔ یہ جماعت جنرل پرویز مشرف نے بنائی تھی۔ ظفراللہ خان جمالی کو وزیراعظم تعینات کیا گیا تاہم دو برس بعد ان کی جگہ شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ جنرل مشرف نے ترامیم کے بعد سن 1973 کا ملکی آئین بحال کر دیا۔
تصویر: AP
2007
جنرل مشرف نے ملکی چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جس کے بعد ملک گیر مظاہرے شروع ہو گئے۔ افتخار چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا گیا تاہم بعد ازاں جنرل مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔ دریں اثنا ملکی پارلیمان نے پہلی مرتبہ اپنی پانچ سالہ مدت بھی مکمل کی۔
تصویر: AP
2007
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما بینظیر بھٹو ایک مفاہمت کے بعد انتخابات میں حصہ لینے کے لیے وطن واپس لوٹ آئیں۔ بعد ازاں نواز شریف کو بھی سعودی عرب سے وطن واپس آنے کی اجازت مل گئی۔ انتخابی مہم کے دوران راولپنڈی میں ایک جلسے کے بعد بینظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images
2008– چوتھا جمہوری دور
بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد منعقد ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی۔ یوسف رضا گیلانی ملکی وزیر اعظم بنے جب کہ بنظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری نے ملکی صدر بننے کو ترجیح دی۔ الزامات اور تنازعات کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت پانچ سالہ مدت مکمل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Getty Images
2013
اس برس کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون نے کامیابی حاصل کی اور ملکی آئین میں ترامیم کے باعث نواز شریف تیسری مرتبہ ملکی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ عمران خان کی جماعت تحریک انصاف ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی۔ پیپلز پارٹی سندھ جب کہ پی ٹی آئی صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
تصویر: AFP/Getty Images
2017
تین مرتبہ وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کو کرپشن کے الزامات کے باعث کرسی سے محروم ہونا پڑا۔ سپریم کورٹ نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے اور کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ نواز شریف نے فوج پر الزامات عائد کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اختیار کیا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
2018
پاکستان میں پھر انتخابات ہونے والے ہیں۔ نواز شریف کے بعد مسلم لیگ ن کی قیادت ان کے بھائی شہباز شریف کر رہے ہیں۔ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو سزائیں ہو چکی ہیں۔ بظاہر مسلم لیگ نون اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی جانب سے دباؤ کا شکار ہے۔ عمران خان کو امید ہے کہ اس مرتبہ ان کی جماعت جیتنے میں کامیاب رہے گی۔ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو عملی سیاست میں اتار چکی ہے۔ انتخابات کا انعقاد 25 جولائی کو ہو گا۔