انتخابی نتائج کے بحران کے تناظر میں کیری کابل پہنچ گئے
7 اگست 2014افغانستان ميں جون ميں منعقدہ صدارتی اليکشن کے دوسرے مرحلے ميں دھاندلی کے الزامات کے سبب نتائج کا دوبارہ جائزہ ليے جانے کا عمل جاری ہے۔
14 جون کو منعقد ہونے والے ان انتخابات کے دوسرے مرحلے میں ابتدائی غیر حتمی نتائج میں اشرف غنی کی برتری کا اعلان کیا گیا تھا، تاہم عبداللہ عبداللہ نے اس اعلان کو مسترد کرتے ہوئے اپنی فتح کا اعلان کر دیا تھا۔ ایک دوسرے کے مدمقابل امیدواروں کی جانب سے بے ضابطگیوں اور دھاندلی کے الزامات کے بعد سیاسی جمود کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ تاہم گزشتہ ماہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی سفارتی کوششوں کے بعد دونوں رہنما اس الیکشن کے دوران ڈالے گئے 8.1 ملین ووٹوں کی چھان بین اور اس کے بعد سامنے آنے والے نتائج کا احترام کرنے پر متفق ہو گئے تھے۔
تاہم اس معاہدے پر کوئی خاص پیشرفت ابھی تک ممکن نہیں ہو سکی ہے جس کی وجہ دونوں امیدواروں کے درمیان دیگر معاملات پر پیدا ہونے والے اختلافات ہیں۔ اسی باعث ابھی تک انتخابی نتائج کے لیے کسی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
تاہم نئے صدر کے لیے ذمہ داریاں سنبھالنے کے حوالے سے وقت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے کیونکہ اگلے ماہ یعنی چار اور پانچ ستمبر کو نیٹو ممالک کا سربراہی اجلاس منعقد ہونا ہے جس میں جنگ زدہ افغانستان کے لیے اقتصادی اور دیگر امداد جیسے معاملات پر فیصلے متوقع ہیں۔
جان کیری کے ساتھ سفر کرنے والے ایک امریکی اہلکار کے مطابق، ’’ہماری خواہش ہے کہ نئے افغان صدر اس مہینے کے آخر تک اپنا عہدہ سنبھال لیں۔‘‘ اس اہلکار کے مطابق یہ بات سب کے حق میں ہے کہ جلد از جلد انتخابی نتائج کے حوالے سے مشکلات کو حل کیا جائے اور نظام حکومت نئے صدر کے حوالے کیا جائے۔
افغانستان میں رواں صدارتی انتخابات کا انعقاد رواں برس پانچ اپریل کو ہوا تھا تاہم اس وقت تمام آٹھ امیدواروں میں سے کسی ایک کو بھی مطلوبہ 50 فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں ملے تھے۔ افغان آئین کے مطابق اگر کوئی بھی امیدوار ڈالے گئے ووٹوں کا 50 فیصد یا اس سے زائد حاصل نہ کر سکے تو پھر دوسرے مرحلے کا انعقاد کرایا جاتا ہے جس میں دو سرفہرست امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے۔ ووٹنگ کے پہلے مرحلے میں عبداللہ عبداللہ کو 44.9 فیصد اور اشرف غنی احمد زئی کو 31.5 فیصد ووٹ ملے تھے۔