انتہائی دائیں بازو کی جرمن سیاسی جماعت اے ایف ڈی کے دس سال
6 فروری 2023
جرمنی میں اسلام اور تارکین وطن کی مخالفت کے باعث مشہور عوامیت پسند سیاسی جماعت ’متبادل برائے جرمنی‘ یا اے ایف ڈی گزشتہ دس برسوں میں ملکی سیاست میں انتہائی دائیں بازو کی پارٹی کے طور پر اپنی ایک باقاعدہ جگہ بنا چکی ہے۔
تصویر: Rolf Vennenbernd/dpa/picture alliance
اشتہار
'متبادل برائے جرمنی‘ (Alternative for Germany) یا اے ایف ڈی (AfD) کا قیام یورپی یونین کے بارے میں کم امیدی کا اظہار کرنے والی ایک پارٹی کے طور پر عمل میں آیا تھا اور پھر جلد ہی یہ جرمن سیاسی جماعت قدرے ناامید اور عدم اطمینان کا شکار جرمن ووٹروں کی توجہ کا مرکز بن گئی تھی۔
اس پارٹی نے انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسندوں کو بھی اپنی صفوں میں جگہ دی اور گزشتہ ایک عشرے کے دوران اسے حاصل سیاسی حمایت بتدریج اتنی بڑھتی گئی کہ اب یہ جماعت حکومت میں شمولیت کے لیے کوشاں ہے۔
اے ایف ڈی کے لیے جشن کی وجوہات
'متبادل برائے جرمنی‘ نے گزشتہ ایک دہائی میں جتنی کامیابیاں حاصل کی ہیں، ان کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اس کے پاس اپنے اس دس سالہ سفر میں کامیابی کا جشن منانے کی ہر ممکن وجہ موجود ہے۔
اس پارٹی کو 2017ء سے وفاقی پارلیمان بنڈس ٹاگ میں بھی نمائندگی حاصل ہے اور یہ جرمنی کے کُل 16 وفاقی صوبوں میں سے 15 کے پارلیمانی اداروں میں بھی نمائندگی کی حامل ہے۔
چودہ اپریل دو ہزار تیرہ کے روز برلن منعقدہ اے ایف ڈی کی تاسیس کی تقریب میں اس پارٹی کے تینوں مرکزی بانی ارکانتصویر: Marc Tirl/dpa/picture alliance
رائے عامہ کے تازہ ترین جائزوں کے مطابق اس وقت پورے جرمنی میں اسے تقریباﹰ 13 فیصد رائے دہندگان کی حمایت حاصل ہے جبکہ ملک کے مشرق میں نئے وفاقی صوبے کہلانے والی ریاستوں میں تو اسے حاصل عوامی تائید 13 فیصد سے بھی کہیں زیادہ ہے۔
شروع سے اب تک آنے والی تبدیلیاں
اے ایف ڈی نے اپنے قیام سے لے کر آج تک اپنے سیاسی سفر میں کئی حوالوں سے ارتقا کا سفر بھی طے کیا ہے۔ جرمن ماہر سیاسیات اُرزُولا میُونش نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ شروع میں اس سیاسی جماعت کو کئی ماہرین نے ''انتہائی دائیں بازو کی انتہا پسند، سامیت دشمن اور نسل پرست جماعت‘‘ قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔
اپنی تاسیس کے وقت یہ جماعت یورپی مشترکہ کرنسی یورو پر بھی تنقید کرتی تھی اور یورپی یونین کے مالیاتی بحران کے شکار ملک یونان کے لیے بیل آؤٹ پیکج کے بھی خلاف تھی۔ پھر 2013ء کے قومی انتخابات میں 'الیکشن متبادل 2013ء‘ کا قیام عمل میں آیا، جو بعد میں ایک سیاسی جماعت کے طور پر اے ایف ڈی کا پیش رو سیاسی بلاک ثابت ہوا۔
دو ہزار پندرہ میں جرمنی میں لاکھوں شامی مہاجرین کی آمد کے ساتھ ہی اے ایف ڈی کی عوامی حمایت میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا تھاتصویر: Reuters/Hannibal Hanschke
اس کے بعد اقتصادیات کے پروفیسر بیرنڈ لیُوکے، صحافی کونراڈ آڈم اور قدامت پسند جرمن سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کے ایک سابق رکن الیکسانڈر گاؤلینڈ نے مل کر اس جماعت کی 'متبادل برائے جرمنی‘ کے طور پر بنیاد رکھی۔
اشتہار
باقاعدہ قیام چھ فروری 2013ء کے روز
اے ایف ڈی کا ایک جرمن سیاسی جماعت کے طور پر باقاعدہ قیام چھ فروری 2013ء کے روز عمل میں آیا تھا۔ اس پارٹی کے دس سال پورے ہونے کے موقع پر جب ڈی ڈبلیو نے اس جماعت کی قیادت سے رابطہ کیا، تو اس کی شریک سربراہ ایلیس وائڈل نے اپنے تحریری جواب میں لکھا، ''آج اے ایف ڈی جرمن سیاسی جماعتوں کے نظام کا ایک لازمی حصہ ہے، ایک ایسا نظام جس میں ماضی میں فیصلہ کن حد تک ترقی پسند قدامت پسندانہ سیاسی طاقت کی کمی تھی۔‘‘
'متبادل برائے جرمنی‘ کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اس پارٹی کی قیادت ماضی میں تھوڑے تھوڑے وقفے سے مسلسل بدلتی رہی ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اس کے تین بڑے بانی ارکان میں سے دو اب تک یہ پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔
اے ایف ڈی کی موجودہ شریک سربراہ ایلیس وائڈلتصویر: Political-Moments/IMAGO
جرمن ماہر سیاسیات میُونش کہتی ہیں، ''اے ایف ڈی فکری طور پر ایک ایسی منقسم سیاسی جماعت ہے، جس کی قیادت اور جس کے حامی ووٹروں کے مابین بار بار جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں۔‘‘
اسی ہفتے جرمنی میں رائے عامہ کے ایک تازہ جائزے میں 75 فیصد جرمن باشندوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ اس جماعت نے ابھی تک دائیں بازو کے اپنے انتہا پسندانہ موقف سے کافی حد تک دوری اختیار نہیں کی۔
مردوں کی پارٹی
اے ایف ڈی کے ارکان کی پورے ملک میں موجودہ تعداد 80 ہزار سے تھوڑی سی کم ہے۔ یوں رکنیت کے حوالے سے اس کی باقاعدہ عوامی طاقت ترقی پسندوں کی فری ڈیموکریٹک پارٹی ایف ڈی پی کی طاقت کے تقریباﹰ برابر ہے۔
اے ایف ڈی کا اسلام مخالف منصوبہ اور عوامی ردعمل
03:16
This browser does not support the video element.
ایف ڈی پی موجودہ تین جماعتی وفاقی مخلوط حکومت میں شامل سب سے چھوٹی جماعت ہے۔ موجودہ حکومت کے سربراہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے وفاقی چانسلر اولاف شولس ہیں، جن کی جماعت کے ملک بھر میں ارکان کی مجموعی تعداد تین لاکھ 80 ہزار کے قریب بنتی ہے۔
'متبادل برائے جرمنی‘ کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اسے مردوں کی سیاسی جماعت سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کے 80 فیصد سے زائد ارکان مرد ہیں۔ 2020ء کے موسم گرما میں کرائے گئے ایک غیر سرکای جائزے کے مطابق اے ایف ڈی کے 29 فیصد ارکان انتہائی دائیں بازو کے سیاسی نظریات کے حامل تھے۔
اسی لیے اس جماعت کے ارکان اور اسے ووٹ دینے والے افراد میں مردم بیزاری، سامیت دشمنی اور مطلق العنان طرز حکومت کی حمایت کا رجحان جرمنی کی دیگر سیاسی جماعتوں کے ارکان کی نسبت کہیں زیادہ اور شدید ہے۔
جرمن صوبے تھیورنگیا سے تعلق رکھنے والے بیورن ہوئکے جو اے ایف ڈی کے اندر دائیں بازو کے انتہا پسند دھڑے کے سربراہ ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کی مقبولیت بڑھتی ہی جا رہی ہےتصویر: Kai Horstmann/imago images
روس دوست موقف
یورپی اور بین الاقوامی سیاست کے حوالے سے اے ایف ڈی کی سوچ کی ایک مخصوص بات یہ بھی ہے کہ اس جماعت کی طرف سے روسی یوکرینی جنگ میں روس کی حمایت کی جاتی ہے۔ اس پارٹی کے رہنما اس لیے بھی یوکرین کے خلاف جنگ میں روس کے حامی ہیں کہ ماضی میں ان رہنماؤں کے روس کے ساتھ دیرینہ دوستانہ روابط رہے ہیں۔
اس پارٹی کی شریک سربراہ وائڈل نے اس مطالبے کی مخالفت کی تھی کہ روسی صدر پوٹن کو جنگی جرائم کی کسی عدالت کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے یا اس جنگ کے باعث جرمنی یا یورپ کو روس کے خلاف کوئی پابندیاں عائد کرنا چاہییں۔
اسی لیے روسی یوکرینی جنگ میں اے ایف ڈی کے رہنما شروع ہی سے اس بات کے بھی خلاف تھے کہ یوکرین کو کوئی ہتھیار مہیا کیے جانا چاہییں۔ اسی تناظر میں جرمن حکومت کی طرف سے یوکرین کو لیوپارڈ ٹو طرز کے جنگی ٹینک مہیا کرنے کے فیصلے کو وائڈل نے 'تباہ کن فیصلہ‘ قرار دیا تھا۔
کیمنِٹس کے انتہائی دائیں بازو اور نازی سیلیوٹ کرتا بھیڑیا
جرمنی میں کئی مقامات پر تانبے سے بنے بھیڑیے کے ایسے مجسمے نصب کیے گئے ہیں جو نازی دور کے سیلیوٹ کے حامل ہیں۔ اب ان مجسموں کو مشرقی شہر کیمنٹس میں بھی نصب کیا گیا ہے، جہاں ان دنوں اجانب دشمنی کی وجہ سے خوف پایا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’بھیڑیوں کی واپسی‘
جرمنی میں تانبے کے 66 مجسموں کی ایک سیریز تخلیق کی گئی، یہ نازی سیلیوٹ کا انداز بھی اپنائے ہوئے ہیں، یہ جرمنی میں ممنوع ہے۔ مجسمہ ساز رائنر اوپولکا کے بقول یہ تخلیق نسل پرستی کے خطرے کی علامت ہے۔ تاہم انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے ہمدرد خود کو بھیڑیے سے تشبیہ دینے لگے ہیں۔ مہاجرت مخالف AFD کے رہنما ہوئکے نے کہا ہے کہ ہٹلر کے پراپیگنڈا وزیر گوئبلز نے 1928ء میں بھیڑیے کی اصطلاح استعمال کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
کیمنٹس میں دس بھیڑیے
فنکار رائنر اوپولکا نے اپنے یہ مجسمے ایسے مقامات پر لگائے ہیں جہاں اجانب دشمنی اور نسل پرستانہ رویے پائے جاتے ہیں۔ ان کو ڈریسڈن میں پیگیڈا تحریک کی ریلیوں کے دوران نصب کیا گیا تھا۔ میونخ کی عدالت کے باہر بھی یہ مجسمے اُس وقت نصب کیے گئے تھے جب انتہائی دائیں بازو کی خاتون بیاٹے شاپے کو قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ شاپے نیو نازی گروپ این ایس یو کے دہشت گردانہ سیل کی رکن تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
انتہائی دائیں بازو کے بھیڑیے
کیمنٹس شہر میں گزشتہ جمعے کو انتہائی دائیں بازو کی ایک نئی ریلی کا انتظام کارل مارکس کے مجسمے اور تانبے کے بھیڑیے کے سامنے کیا گیا۔ اس ریلی میں انتہائی دائیں بازو کے کارکنوں نے بھیڑیے کے پہناوے میں جارح رویہ اپنا رکھا تھا اور بعض نے آنکھوں کو چھپا رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’کیمنٹس میں جرأت ہے‘
رواں برس ماہِ ستمبر کے اوائل میں انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں کی وجہ سے کیمنٹس کے تشخص پر انگلیاں بھی اٹھیں۔ اس دوران مرکزِ شہر میں نسل پرستی اور قوم پرستی کی مذمت کے جہاں بینر لگائے گئے وہاں ایک بڑے میوزیکل کنسرٹ کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اس کنسرٹ میں 65 ہزار افراد نے شرکت کر کے واضح کیا کہ اُن کی تعداد دائیں بازو کے قوم پرستوں سے زیادہ ہے۔
تصویر: Reuters/T. Schle
شہر کے تشخص پر نشان
کیمنِٹس کی شہری انتظامیہ نے انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان سے فاصلہ اختیار کر رکھا ہے۔ سٹی ایڈمنسٹریشن کے کئی اہلکاروں کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں سے کیمنِٹس کا تشخص مستقلاً مسخ ہو سکتا ہے۔ شہری انتظامیہ نے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے انتہا پسندوں کے خلاف عدالتی عمل کو سرعت کے ساتھ مکمل کیا جائے جنہوں نے نفرت کو فروغ دے کر تشدد اور مظاہروں کو ہوا دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
5 تصاویر1 | 5
اگلا ہدف حکومت سازی
وفاقی سطح پر دس سال تک اپوزیشن میں رہنے کے بعد اے ایف ڈی کا اگلا ہدف اب یہ ہے کہ وہ حکومت سازی کرے یا کسی مخلوط حکومت میں ایک بڑی جماعت کے طور پر شامل ہو۔ اس امر کا وفاقی سطح پر امکان تو مستقبل قریب میں اس پارٹی کی دسترس میں نظر نہیں آتا، تاہم صوبائی سطح پر یہ مشرقی صوبوں میں اپنی ایسی ہی کسی کامیابی یا کامیابیوں کے لیے کوشاں ہے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ جرمنی کے مشرقی صوبوں میں خاص کر دور دراز کے دیہی علاقوں میں اس پارٹی کو باقاعدگی سے 20 فیصد سے زیادہ تک ووٹ ملتے ہیں۔ مشرقی جرمنی کے دو وفاقی صوبوں سیکسنی اور تھیورنگیا میں تو یہ جماعت سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہے۔
انہی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے پارٹی کی شریک سربراہ وائڈل نے ڈی ڈبلو کے نام اپنے تحریری جواب میں لکھا، ''حکومت میں شمولیت ہمارا اگلا منطقی قدم ہو گا۔‘‘
م م / ع ا (فولکر وِٹِنگ)
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔