اے ایف ڈی کی مقبولیت پھر کم ہو جائے گی، جرمن چانسلر کو یقین
14 جولائی 2023
جرمن چانسلر اولاف شولس کو یقین ہے کہ انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت ’متبادل برائے جرمنی‘ یا اے ایف ڈی کی گزشتہ کچھ عرصے سے بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت اگلے عام انتخابات تک کم ہو کر پھر اپنی گزشتہ سطح تک آ جائے گی۔
اشتہار
وفاقی چانسلر اولاف شولس نے جمعہ 14 جولائی کے روز موسم گرما کی اپنی سالانہ پریس کانفرنس کے دوران برلن میں صحافیوں کو بتایا کہ 'الٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ‘ یا متبادل برائے جرمنی (اے ایف ڈی) نامی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت کی عوامی مقبولیت میں ماضی قریب میں جو اضافہ دیکھا گیا ہے، وہ زیادہ عرصے تک جاری نہیں رہے گا۔
گزشتہ عام انتخابات میں ملنے والے ووٹ
چانسلر شولس کے مطابق انہیں یقین ہے کہ 2025ء میں ہونے والے اگلے عام انتخابات تک اے ایف ڈی کو حاصل جرمن ووٹروں کی تائید و حمایت کم ہو کر دوبارہ اپنی پہلے والی نچلی سطح تک آ جائے گی۔ 2021ء میں ہونے والے قومی الیکشن میں اے ایف ڈی نے مجموعی طور پر 10.3 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔
دو سال پہلے کے عام انتخابات میں اس پارٹی کو ملنے والے ووٹ اس سے چار برس قبل 2017ء کے الیکشن میں ملنے والی 12.6 فیصد عوامی تائید کے مقابلے میں واضح طور پر کم رہے تھے۔ 2017ء میں اس پارٹی کی تائید و حمایت میں اضافہ جرمنی سمیت یورپی یونین میں مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران کے نتیجے میں ہوا تھا۔
اشتہار
اے ایف ڈی کی مقبولیت کی موجودہ سطح
جرمنی میں اسلام اور مہاجرین و تارکین وطن کی آمد کی مخالفت کی وجہ سے ملکی آبادی کے ایک حصے میں پذیرائی حاصل کرنے والی انتہائی دائیں بازو کی پارٹی AfD کے بارے میں حالیہ عوامی جائزوں سے یہ پتہ چلا تھا کہ اس وقت جرمن رائے دہندگان میں اس جماعت کی حمایت کی شرح تقریباﹰ 20 فیصد ہے۔
عوامی مقبولیت کا یہ تناسب تقریباﹰ اتنا ہی ہے، جتنی مقبولیت چانسلر اولاف شولس کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کو حاصل ہے۔
اولاف شولس ایک تین جماعتی حکومت کے سربراہ ہیں اور اس مخلوط حکومت میں شولس کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی)، ترقی پسندوں کی فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) اور ماحول پسندوں کی گرین پارٹی شامل ہیں۔
متبادل برائے جرمنی کو حاصل سیاسی حمایت کے بارے میں وفاقی چانسلر شولس نے صحافیوں کو بتایا، ''مجھے کافی زیادہ یقین ہے کہ اے ایف ڈی کی آئندہ قومی الیکشن میں کارکردگی اس سے زیادہ مختلف نہیں ہو گی، جیسی اس نے پچھلے وفاقی الیکشن میں دکھائی تھی۔‘‘
نئی جرمن پارلیمان: نئے چہروں کے ساتھ پہلے سے زیادہ جوان
ایک ماہ قبل جرمنی میں عام انتخابات میں نئی وفاقی پارلیمان منتخب کی گئی تھی۔ چھبیس اکتوبر کو نئی پارلیمان کا اولین اجلاس منعقد ہوا۔
تصویر: CSU
نوجوان پارلیمان
اپنے اراکین کی اوسط عمر کے لحاظ سے سات سو چھتیس رکنی نئی بنڈس ٹاگ سابقہ پارلیمان سے واضح طور پر زیادہ نوجوان ہے۔ ان میں سب سے کم عمر رکن تیئیس سالہ ایمیلیا فیسٹر ہے۔ سینتالیس اراکین کی عمریں تیس برس سے کم ہیں۔
تصویر: Kay Nietfeld/dpa/picture alliance
ایک اوسط سیاستدان
نئی بنڈس ٹاگ میں قدامت پسند جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین سے تعلق رکھنے والے میشائل برانڈ سینتالیس برس کے ہیں اور یہی اس نئی جرمن پارلیمان کے اراکین کی اوسط عمر ہے۔ وہ ایک وکیل ہیں اور یہ جرمن سیاستدانوں کا مقبول پیشہ تصور کیا جاتا ہے۔ ان کے نام کا ابتدائی حصہ میشائل ہے اور یہی نئی جرمن پارلیمان کا سب سے زیادہ مشترکہ نام بھی ہے۔
تصویر: HMB Media/Mueller/picture alliance
بزرگ سیاستدان
نئی جرمن پارلیمان کے سب سے بزرگ سیاستدان الیگزانڈر گاؤلانڈ ہیں اور ان کی عمر اسی برس ہے۔ ان کا تعلق عوامیت پسند سیاسی جماعت متبادل برائے جرمنی یا اے ایف ڈی سے ہے۔ سی ڈی یو کے ساتھ طویل عرصے سے وابستگی رکھنے والے وولف گانگ شوئبلے نے نئی پارلیمنٹ کے اولین سیشن کا آغاز کیا۔
تصویر: Christoph Hardt/Geisler-Fotopress/picture alliance
صنفی تنوع
گزشتہ کے مقابلے میں نئی پارلیمنٹ میں خواتین ارکان کی تعداد چار فیصد زیادہ ہو گئی ہے۔ سب سے زیادہ اضافہ سوشلسٹ لیفٹ پارٹی کے اراکین میں ہوا ہے۔ حقیقی صنفی برابری کی سمت یہ ایک سست رفتار عمل ہے۔ چوالیس سالہ ٹیسا گانزیرر اور ستائیس سالہ نائک سلاوک پہلی ٹرانس جینڈر خواتین ارکان ہیں۔ اس موقع پر سلاوک نے ٹویٹ کی کہ ان کی کامیابی کی کہانی دنیا بھر میں مقبول ہو گی۔
مہاجرت کی تاریخ
جرمن پارلیمان کے تراسی اراکین کا تعلق تارکین وطن کی برادریوں سے ہے۔ زیادہ تر اراکین لیفٹ پارٹی سے وابستہ ہیں۔ ایس پی ڈی کی انتیس سالہ راشا نصر بھی ان میں سے ایک ہیں۔ وہ شامی والدین کی اولاد ہیں اور مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں پیدا ہوئی تھیں۔
تصویر: SPD
افریقی نژاد جرمنوں کی نمائندگی
آرمانڈ سورن جرمنی کی بڑھتی ہوئی افریقی نژاد برادری کے نمائندہ ہیں۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے سورن افریقی ملک کیمرون میں پیدا ہوئے اور بارہ سال کی عمر میں جرمنی آئے تھے۔ ستمبر کے انتخابات میں وہ براہ راست نشست جیت کر پارلیمنٹ میں پہنچے۔ اس تناظر میں ان کا کہنا تھا کہ ان کا انتخاب واضح کرتا ہے کہ جرمن معاشرہ بہت متنوع ہے۔
تصویر: Sebastian Gollnow/dpa/picture-alliance
اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ
زیادہ تر اراکینِ پارلیمان یونیورسٹی کی سطح کی تعلیم رکھتے ہیں۔ بہت کم ووکیشنل تعلیم کے حامل ہیں۔ اِن میں سے ایک انسٹھ سالہ گلستان اؤکسیل ہیں۔ وہ سن ستر کی دہائی میں جرمنی پہنچنے والے ایک مہمان کارکن کی بیٹی ہیں۔ انہوں نے فارمیسی اسسٹنٹ کی تربیت حاصل کر رکھی ہے۔ سیاست میں آنے کے بعد وہ پہلی مرتبہ رکن پارلیمان سن 2013 میں بنی تھیں۔
تصویر: Jens Krick/Flashpic/picture alliance
کاروباری افراد
جرمن پارلیمنٹ میں چھوٹے کاروباری طبقے کی نمائندگی توقع سے کم ہوتی ہے۔ اس مرتبہ اس طبقے کے اکاون اراکین ہیں۔ زیادہ تر کا تعلق کاروبار دوست سیاسی جماعت فری ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ ان میں سے ایک کرسٹینے لیُوٹکے ہیں۔ اڑتیس سالہ لیُوٹکے نے ایک اولڈ پیپلز ہوم کا انتظام اپنے والدین سے سنبھالا۔
تصویر: FDP/Heidrun Hoenninger
وبا کے باوجود ماہرین صحت کی کمی
کووڈ انیس کی وبا نے ہیلتھ سیکٹر کی اہمیت کو اجاگر ضرور کیا لیکن پارلیمنٹ میں ان کی تعداد بہت کم ہے۔ صرف چند ایک ڈاکٹرز ہیں اور باقی کئی صحت کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک صوبے باویریا کی قدامت پسند سیاسی جماعت کرسچن سوشل یونین کے اشٹیفان پِلزِنگر ہیں، جو ایک ماہر ڈاکٹر ہیں۔
تصویر: CSU
9 تصاویر1 | 9
شولس حکومت کی حکمت عملی
جرمن چانسلر کے مطابق ان کی ذاتی اور حکومتی کوشش یہ ہے کہ ایسی پالیسیوں پر عمل کیا جائے، جن کے تحت جرمنی میں جدیدیت کا عمل بھی جاری رہے اور عام شہریوں کے لیے اس بات پر یقین کی بھی کافی وجوہات ہوں کہ ایک اچھا اور مزید بہتر مستقبل ہی ان کا منتظر ہے۔
پیسنٹھ سالہ اولاف شولس کے الفاظ میں ان کی دو بڑی ترجیحات یہ بھی ہیں کہ جرمن عوام کو یقین ہو کہ ملکی سرحدیں پوری طرح جرمنی کے اپنے کنٹرول میں ہیں اور حکومت تارکین وطن کی بےقاعدہ آمد پر قابو پانے کی اہلیت رکھتی ہے۔
کیمنِٹس کے انتہائی دائیں بازو اور نازی سیلیوٹ کرتا بھیڑیا
جرمنی میں کئی مقامات پر تانبے سے بنے بھیڑیے کے ایسے مجسمے نصب کیے گئے ہیں جو نازی دور کے سیلیوٹ کے حامل ہیں۔ اب ان مجسموں کو مشرقی شہر کیمنٹس میں بھی نصب کیا گیا ہے، جہاں ان دنوں اجانب دشمنی کی وجہ سے خوف پایا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’بھیڑیوں کی واپسی‘
جرمنی میں تانبے کے 66 مجسموں کی ایک سیریز تخلیق کی گئی، یہ نازی سیلیوٹ کا انداز بھی اپنائے ہوئے ہیں، یہ جرمنی میں ممنوع ہے۔ مجسمہ ساز رائنر اوپولکا کے بقول یہ تخلیق نسل پرستی کے خطرے کی علامت ہے۔ تاہم انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے ہمدرد خود کو بھیڑیے سے تشبیہ دینے لگے ہیں۔ مہاجرت مخالف AFD کے رہنما ہوئکے نے کہا ہے کہ ہٹلر کے پراپیگنڈا وزیر گوئبلز نے 1928ء میں بھیڑیے کی اصطلاح استعمال کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
کیمنٹس میں دس بھیڑیے
فنکار رائنر اوپولکا نے اپنے یہ مجسمے ایسے مقامات پر لگائے ہیں جہاں اجانب دشمنی اور نسل پرستانہ رویے پائے جاتے ہیں۔ ان کو ڈریسڈن میں پیگیڈا تحریک کی ریلیوں کے دوران نصب کیا گیا تھا۔ میونخ کی عدالت کے باہر بھی یہ مجسمے اُس وقت نصب کیے گئے تھے جب انتہائی دائیں بازو کی خاتون بیاٹے شاپے کو قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ شاپے نیو نازی گروپ این ایس یو کے دہشت گردانہ سیل کی رکن تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
انتہائی دائیں بازو کے بھیڑیے
کیمنٹس شہر میں گزشتہ جمعے کو انتہائی دائیں بازو کی ایک نئی ریلی کا انتظام کارل مارکس کے مجسمے اور تانبے کے بھیڑیے کے سامنے کیا گیا۔ اس ریلی میں انتہائی دائیں بازو کے کارکنوں نے بھیڑیے کے پہناوے میں جارح رویہ اپنا رکھا تھا اور بعض نے آنکھوں کو چھپا رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’کیمنٹس میں جرأت ہے‘
رواں برس ماہِ ستمبر کے اوائل میں انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں کی وجہ سے کیمنٹس کے تشخص پر انگلیاں بھی اٹھیں۔ اس دوران مرکزِ شہر میں نسل پرستی اور قوم پرستی کی مذمت کے جہاں بینر لگائے گئے وہاں ایک بڑے میوزیکل کنسرٹ کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اس کنسرٹ میں 65 ہزار افراد نے شرکت کر کے واضح کیا کہ اُن کی تعداد دائیں بازو کے قوم پرستوں سے زیادہ ہے۔
تصویر: Reuters/T. Schle
شہر کے تشخص پر نشان
کیمنِٹس کی شہری انتظامیہ نے انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان سے فاصلہ اختیار کر رکھا ہے۔ سٹی ایڈمنسٹریشن کے کئی اہلکاروں کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں سے کیمنِٹس کا تشخص مستقلاً مسخ ہو سکتا ہے۔ شہری انتظامیہ نے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے انتہا پسندوں کے خلاف عدالتی عمل کو سرعت کے ساتھ مکمل کیا جائے جنہوں نے نفرت کو فروغ دے کر تشدد اور مظاہروں کو ہوا دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
5 تصاویر1 | 5
سوشل ڈیموکریٹ چانسلر نے ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں سے یہ اپیل بھی کی کہ وہ تمام 16 وفاقی صوبوں میں اپنی آپس کی رقابت اور مقابلہ بازی کے منفی اثرات کو بھی کبھی فراموش نہ کریں۔ ان سولہ وفاقی صوبوں میں سے چند میں اسی سال یا آئندہ برس ریاستی انتخابات بھی ہونا ہیں۔
اولاف شولش نے کہا، ''ہر جرمن صوبے میں ووٹروں کی اکثریت جمہوری سیاسی جماعتوں کے حامیوں کی ہے اور کسی بھی وفاقی صوبے میں معاشرتی زندگی کے مرکزی دھارے میں انتہائی دائیں بازو کے نظریات آج تک معمول کی سوچ نہیں بن سکے۔‘‘
م م / ش ح (اے ایف پی، اے پی)
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔