1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

اے ایف ڈی کی مقبولیت پھر کم ہو جائے گی، جرمن چانسلر کو یقین

14 جولائی 2023

جرمن چانسلر اولاف شولس کو یقین ہے کہ انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت ’متبادل برائے جرمنی‘ یا اے ایف ڈی کی گزشتہ کچھ عرصے سے بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت اگلے عام انتخابات تک کم ہو کر پھر اپنی گزشتہ سطح تک آ جائے گی۔

Sommer-Pressekonferenz von Bundeskanzler Scholz
چانسلر اولاف شولس کی یہ پریس کانفرنس حسب روایت برلن میں فیڈرل پریس کانفرنس ہال میں ہوئیتصویر: Michael Kappeler/dpa

وفاقی چانسلر اولاف شولس نے جمعہ 14 جولائی کے روز موسم گرما کی اپنی سالانہ پریس کانفرنس کے دوران برلن میں صحافیوں کو بتایا کہ 'الٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ‘ یا متبادل برائے جرمنی (اے ایف ڈی) نامی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت کی عوامی مقبولیت میں ماضی قریب میں جو اضافہ دیکھا گیا ہے، وہ زیادہ عرصے تک جاری نہیں رہے گا۔

گزشتہ عام انتخابات میں ملنے والے ووٹ

چانسلر شولس کے مطابق انہیں یقین ہے کہ 2025ء میں ہونے والے اگلے عام انتخابات تک اے ایف ڈی کو حاصل جرمن ووٹروں کی تائید و حمایت کم ہو کر دوبارہ اپنی پہلے والی نچلی سطح تک آ جائے گی۔ 2021ء میں ہونے والے قومی الیکشن میں اے ایف ڈی نے مجموعی طور پر 10.3 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔

انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی کامیابی 'لمحہ فکریہ'، جرمن صدر

جرمن چانسلر شولس (بائیں طرف، سامنے) موسم گرما کی اپنی سالانہ پریس کانفرنس کے لیے آتے ہوئےتصویر: Annegret Hilse/Reuters

انتہائی دائیں بازو کی جرمن سیاسی جماعت اے ایف ڈی کے دس سال

دو سال پہلے کے عام انتخابات میں اس پارٹی کو ملنے والے ووٹ اس سے چار برس قبل 2017ء کے الیکشن میں ملنے والی 12.6 فیصد عوامی تائید کے مقابلے میں واضح طور پر کم رہے تھے۔ 2017ء میں اس پارٹی کی تائید و حمایت میں اضافہ جرمنی سمیت یورپی یونین میں مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران کے نتیجے میں ہوا تھا۔

اے ایف ڈی کی مقبولیت کی موجودہ سطح

جرمنی میں اسلام اور مہاجرین و تارکین وطن کی آمد کی مخالفت کی وجہ سے ملکی آبادی کے ایک حصے میں پذیرائی حاصل کرنے والی انتہائی دائیں بازو کی پارٹی AfD کے بارے میں حالیہ عوامی جائزوں سے یہ پتہ چلا تھا کہ اس وقت جرمن رائے دہندگان میں اس جماعت کی حمایت کی شرح تقریباﹰ 20 فیصد ہے۔

جرمن عدلیہ اور انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسندوں میں تعلق

اے ایف ڈی کی سیاست کا ایک اہم موضوع جرمنی میں اسلام اور تارکین وطن کی آمد کی مخالفت بھی ہےتصویر: picture alliance/dpa

اسلام، مہاجرین مخالف جرمن پارٹی: انٹیلیجنس کو تفتیش کی اجازت

عوامی مقبولیت کا یہ تناسب تقریباﹰ اتنا ہی ہے، جتنی مقبولیت چانسلر اولاف شولس کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کو حاصل ہے۔

اولاف شولس ایک تین جماعتی حکومت کے سربراہ ہیں اور اس مخلوط حکومت میں شولس کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی)، ترقی پسندوں کی فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) اور ماحول پسندوں کی گرین پارٹی شامل ہیں۔

متبادل برائے جرمنی کو حاصل سیاسی حمایت کے بارے میں وفاقی چانسلر شولس نے صحافیوں کو بتایا، ''مجھے کافی زیادہ یقین ہے کہ اے ایف ڈی کی آئندہ قومی الیکشن میں کارکردگی اس سے زیادہ مختلف نہیں ہو گی، جیسی اس نے پچھلے وفاقی الیکشن میں دکھائی تھی۔‘‘

جرمنی ميں دائیں بازو کی سياسی قوتوں کے گرد گھيرا تنگ

شولس حکومت کی حکمت عملی

جرمن چانسلر کے مطابق ان کی ذاتی اور حکومتی کوشش یہ ہے کہ ایسی پالیسیوں پر عمل کیا جائے، جن کے تحت جرمنی میں جدیدیت کا عمل بھی جاری رہے اور عام شہریوں کے لیے اس بات پر یقین کی بھی کافی وجوہات ہوں کہ ایک اچھا اور مزید بہتر مستقبل ہی ان کا منتظر ہے۔

ترکوں کو ’اونٹ بان‘ کہنے والا جرمن سیاست دان مستعفی

پیسنٹھ سالہ اولاف شولس کے الفاظ میں ان کی دو بڑی ترجیحات یہ بھی ہیں کہ جرمن عوام کو یقین ہو کہ ملکی سرحدیں پوری طرح جرمنی کے اپنے کنٹرول میں ہیں اور حکومت تارکین وطن کی بےقاعدہ آمد پر قابو پانے کی اہلیت رکھتی ہے۔

جرمنی میں 2022ء کے دوران ریکارڈ امیگریشن

سوشل ڈیموکریٹ چانسلر نے ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں سے یہ اپیل بھی کی کہ وہ تمام 16 وفاقی صوبوں میں اپنی آپس کی رقابت اور مقابلہ بازی کے منفی اثرات کو بھی کبھی فراموش نہ کریں۔ ان سولہ وفاقی صوبوں میں سے چند میں اسی سال یا آئندہ برس ریاستی انتخابات بھی ہونا ہیں۔

جرمن آئین کے ستر برس، پارلیمانی بحث: ’ہٹلر اور پرندے کی بیٹ‘

اولاف شولش نے کہا، ''ہر جرمن صوبے میں ووٹروں کی اکثریت جمہوری سیاسی جماعتوں کے حامیوں کی ہے اور کسی بھی وفاقی صوبے میں معاشرتی زندگی کے مرکزی دھارے میں انتہائی دائیں بازو کے نظریات آج تک معمول کی سوچ نہیں بن سکے۔‘‘

م م / ش ح (اے ایف پی، اے پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں