انتہائی دائیں بازو کی جرمن پارٹی: یہودیوں کی شمولیت کی مذمت
9 اکتوبر 2018
جرمنی میں یہودی شہریوں کے ایک گروپ کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی مہاجرین مخالف سیاسی جماعت اے ایف ڈی سامیت دشمن نہیں ہے۔ ان یہودیوں کی ’متبادل برائے جرمنی‘ نامی پارٹی میں شمولیت کی یہودیوں کی اکثریت نے مذمت کی ہے۔
اشتہار
جرمن سیاسی جماعتوں میں سے ’آلٹرنیٹیو فار جرمنی‘ (AfD) یا ’متبادل برائے جرمنی‘ ایک ایسی پارٹی ہے، جو انتہائی دائیں بازو کی سوچ کی حامل ہے اور ملک میں مہاجرین کی آمد کی مخالف ہونے کے ساتھ ساتھ واضح طور پر اسلام مخالف بھی ہے۔ یہ پارٹی جرمنی کی قدامت پسند یونین جماعتوں کرسچین ڈیموکریٹک یونین یا کرسچین سوشل یونین اور مرکز سے تھوڑا سا بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی جتنی پرانی سیاسی جماعت تو نہیں لیکن موجودہ جرمن پارلیمان میں وہ تیسری بڑی سیاسی قوت ہے۔
انتہائی دائیں بازو کی پاپولسٹ سیاست
اس جماعت کے رہنماؤں کے بار بار دیے جانے والے متنازعہ بیانات اور اس پارٹی کے ایجنڈے کو دیکھا جائے تو یہ واضح طور پر ایک عوامیت پسند پارٹی ہے، جس نے خاص طور پر مہاجرین کے بحران کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال میں عام شہریوں کی ہمدردیاں حاصل کر کے اپنی سیاسی اور پارلیمانی طاقت کو یقینی بنایا۔
اب یہی جماعت اس وجہ سے پھر ایک بار شہ سرخیوں کا موضوع بن گئی ہے کہ جرمنی میں یہودی شہریوں کا ایک گروپ یہ کہتے ہوئے اس پارٹی میں شامل ہو گیا ہے کہ اے ایف ڈی سامیت دشمن نہیں اور اس کے خلاف سامیت دشمنی کے الزامات لگاتے ہوئے حقائق کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔
’اے ایف ڈی میں یہودی‘
جرمنی میں یہودیوں کے اس گروپ نے اس پارٹی کے اندر اپنا ایک دھڑا بھی بنا لیا ہے، جسے ’اے ایف ڈی میں یہودی‘ یا Jews in AfD کا نام دیا گیا ہے۔ لیکن جرمنی میں یہودیوں کی آبادی کی اکثریت اور ان کی نمائندہ ملکی تنظیموں نے اے ایف ڈی میں شمولیت پر اس نئے یہودی گروپ کی مذمت کی ہے۔
اے ایف ڈی میں اس یہودی گروپ کی شمولیت کا اعلان ابھی حال ہی میں شہر ویزباڈن میں کیا گیا، جہاں ہونے والی تقریب سے ’متبادل برائے جرمنی‘ کے کئی سرکردہ رہنما بھی شریک ہوئے۔ اس موقع پر کئی مقررین نے نازی دور میں یہودیوں کے قتل عام یا ہولوکاسٹ اور جرمن سیاست اور ثقافت میں اس قتل عام کو یاد رکھنے کی ضرورت کے بارے میں کئی متنازعہ باتیں بھی کیں۔
’پرندے کی بیٹ کا خشک ٹکڑا‘
جرمنی میں یہودی آبادی کی بہت بڑی اکثریت کو اپنے ہم مذہب افراد کی اے ایف ڈی جیسی دائیں بازو کی انتہا پسند سیاسی جماعت میں شمولیت پر افسوس اس لیے بھی ہے کہ مثال کے طور پر اے ایف ڈی کے شریک سربراہ آلیکسانڈر گاؤلینڈ نے اسی سال جون میں یہاں تک کہہ دیا تھا، ’’جرمنی کی ہزار سال سے زائد کی کامیاب تاریخ میں نازی دور کی حیثیت کسی پرندے کی بیٹ کے خشک ٹکڑے سے زیادہ نہیں۔‘‘
یہودی اکثریت حیران
’جے اے ایف ڈی‘ نامی گروپ کی ’متبادل برائے جرمنی‘ میں شمولیت اور اسی گروپ کے اس پارٹی کے سامیت دشمن نہ ہونے سے متعلق دعوے کے بارے میں جرمنی میں یہودیوں کی مرکزی کونسل کی سابق خاتون سربراہ شارلوٹے کنوبلوخ نے روزنامہ ’بِلڈ‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’اے ایف ڈی ایسی پارٹی تھی اور ابھی تک ہے، جس میں سامیت دشمن عناصر خود کو بہت پرسکون اور مطمئن محسوس کرتے ہیں۔ یہ دعویٰ کہ یہودی باشندے اس جماعت میں اپنی رکنیت کی کوئی قائل کر دینے والی دلیل دے سکتے ہیں، قطعی طور پر حیران کن بات ہے۔‘‘
’تعداد غیر اہم ہے‘
اے ایف ڈی میں شامل ہو کر اپنا ایک گروپ بنانے والے یہودی ارکان کی ابتدائی تعداد 20 کے قریب بتائی گئی ہے۔ اس بارے میں اے ایف ڈی میں شامل کرسچین گروپ کے ایک رہنما نے کہا کہ ایسے معاملات میں تعداد غیر اہم ہوتی ہے۔ اے ایف ڈی کرسچین گروپ کے بانی یوآخم کُوہز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جب ہم نے پارٹی میں اپنے کرسچین گروپ کی بنیاد رکھی تھی، تو ہماری تعداد بھی 20 کے قریب تھی۔ لیکن آج ہماری تعداد دس گنا سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔‘‘
’اے ایف ڈی میں یہودی‘ نامی گروپ کے ڈوئچے ویلے کو بھیجے گئے ایک بیان کے مطابق، ’’ہوسکتا ہے کہ پارٹی میں انفرادی سطح پر سامیت دشمن لوگ موجود ہوں۔ لیکن اے ایف ڈی کی خواہش ہے کہ جرمنی کو ایک بار پھر اپنے لیے خود اعتمادی حاصل کرنا ہو گی اور یہ بات یہودیوں کے مفادات سے متصادم نہیں ہے۔‘‘
کیمنِٹس کے انتہائی دائیں بازو اور نازی سیلیوٹ کرتا بھیڑیا
جرمنی میں کئی مقامات پر تانبے سے بنے بھیڑیے کے ایسے مجسمے نصب کیے گئے ہیں جو نازی دور کے سیلیوٹ کے حامل ہیں۔ اب ان مجسموں کو مشرقی شہر کیمنٹس میں بھی نصب کیا گیا ہے، جہاں ان دنوں اجانب دشمنی کی وجہ سے خوف پایا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’بھیڑیوں کی واپسی‘
جرمنی میں تانبے کے 66 مجسموں کی ایک سیریز تخلیق کی گئی، یہ نازی سیلیوٹ کا انداز بھی اپنائے ہوئے ہیں، یہ جرمنی میں ممنوع ہے۔ مجسمہ ساز رائنر اوپولکا کے بقول یہ تخلیق نسل پرستی کے خطرے کی علامت ہے۔ تاہم انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے ہمدرد خود کو بھیڑیے سے تشبیہ دینے لگے ہیں۔ مہاجرت مخالف AFD کے رہنما ہوئکے نے کہا ہے کہ ہٹلر کے پراپیگنڈا وزیر گوئبلز نے 1928ء میں بھیڑیے کی اصطلاح استعمال کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
کیمنٹس میں دس بھیڑیے
فنکار رائنر اوپولکا نے اپنے یہ مجسمے ایسے مقامات پر لگائے ہیں جہاں اجانب دشمنی اور نسل پرستانہ رویے پائے جاتے ہیں۔ ان کو ڈریسڈن میں پیگیڈا تحریک کی ریلیوں کے دوران نصب کیا گیا تھا۔ میونخ کی عدالت کے باہر بھی یہ مجسمے اُس وقت نصب کیے گئے تھے جب انتہائی دائیں بازو کی خاتون بیاٹے شاپے کو قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ شاپے نیو نازی گروپ این ایس یو کے دہشت گردانہ سیل کی رکن تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
انتہائی دائیں بازو کے بھیڑیے
کیمنٹس شہر میں گزشتہ جمعے کو انتہائی دائیں بازو کی ایک نئی ریلی کا انتظام کارل مارکس کے مجسمے اور تانبے کے بھیڑیے کے سامنے کیا گیا۔ اس ریلی میں انتہائی دائیں بازو کے کارکنوں نے بھیڑیے کے پہناوے میں جارح رویہ اپنا رکھا تھا اور بعض نے آنکھوں کو چھپا رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’کیمنٹس میں جرأت ہے‘
رواں برس ماہِ ستمبر کے اوائل میں انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں کی وجہ سے کیمنٹس کے تشخص پر انگلیاں بھی اٹھیں۔ اس دوران مرکزِ شہر میں نسل پرستی اور قوم پرستی کی مذمت کے جہاں بینر لگائے گئے وہاں ایک بڑے میوزیکل کنسرٹ کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اس کنسرٹ میں 65 ہزار افراد نے شرکت کر کے واضح کیا کہ اُن کی تعداد دائیں بازو کے قوم پرستوں سے زیادہ ہے۔
تصویر: Reuters/T. Schle
شہر کے تشخص پر نشان
کیمنِٹس کی شہری انتظامیہ نے انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان سے فاصلہ اختیار کر رکھا ہے۔ سٹی ایڈمنسٹریشن کے کئی اہلکاروں کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں سے کیمنِٹس کا تشخص مستقلاً مسخ ہو سکتا ہے۔ شہری انتظامیہ نے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے انتہا پسندوں کے خلاف عدالتی عمل کو سرعت کے ساتھ مکمل کیا جائے جنہوں نے نفرت کو فروغ دے کر تشدد اور مظاہروں کو ہوا دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
5 تصاویر1 | 5
گیڈےاون اسکینڈل
اے ایف ڈی سیاسی طور پر کس طرح کی جماعت ہے، اس کا اندازہ ان کئی متنازعہ واقعات اور اسکینڈلوں سے بھی لگایا جا سکتا ہے، جن کا اس پارٹی کو گزشتہ برسوں میں ملک کے مختلف حصوں میں سامنا رہا ہے اور جن کی بار بار مذمت کی جاتی رہی ہے۔
اس کی ایک مثال 2016ء میں وولفگانگ گیڈےاون نامی سیاستدان کی ذات سے منسلک اسکینڈل بھی ہے۔ گیڈےاون جنوبی جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ کی ریاستی پارلیمان میں اے ایف ڈی کے حزب کے رکن تھے۔ ان کی ذات سے متعلق ایسی تحریریں سامنے آئی تھیں، جن میں انہوں نے کہا تھا، ’’یہودیت مسیحی دنیا کی اندرونی دشمن ہے اور اسلام مسیحیت کا بیرونی دشمن۔‘‘
اس بہت متنازعہ بیان کے بعد رائے عامہ میں وولفگانگ گیڈےاون کی بھرپور مذمت کی گئی تھی لیکن اے ایف ڈی نے انہیں جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ کی علاقائی پارلیمان میں اپنے منتخب ارکان کے حزب سے تو خارج کر دیا تھا لیکن گیڈےاون کو ایک رکن کے طور پر اے ایف ڈی سے نکالا نہیں گیا تھا۔
بین نائٹ، رومان گونچارینکو / م م / ع ا
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔