1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انتہاپسندوں کے ساتھ پاکستانی ’تعلقات‘ پر اوباما کا انتباہ

7 اکتوبر 2011

امریکی صدر باراک اوباما نے پاکستان پر افغانستان کے مستقبل سے متعلق سودے بازی کا الزام لگایا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اس کی انٹیلیجنس سروسز اور انتہاپسندوں کے درمیان کسی حد تک روابط ہیں۔

باراک اوباماتصویر: dapd

باراک اوباما نے جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا: ’’افغانستان میں حالات کیا رُخ اختیار کریں گے، میرے خیال میں انہوں نے اس بات پر سودے بازی کی ہے۔ اس سودے بازی کا ایک حصہ بدنام کرداروں کے ساتھ تعلقات رکھنا بھی ہے، جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ افغانستان سے اتحادی فورسز کے جانے کے بعد وہ اقتدار میں آ سکتے ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا: ’’ہم نے پاکستان کو جس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی ہے، وہ یہ ہے کہ مستحکم افغانستان ان کے اپنے مفاد میں ہے اور انہیں مستحکم اور آزاد افغانستان سے خطرہ محسوس نہیں کرنا چاہیے۔‘‘

اوباما نے کہا کہ پاکستان امریکی مفادات کو نظرانداز کرتا دکھائی دیا تو اس کے ساتھ طویل المدتی اسٹریٹیجک تعلقات میں واشنگٹن انتظامیہ کی تسلی نہیں ہو گی۔

تاہم انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ ابھی کچھ کام باقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ پاکستان کی مدد کے لیے بدستور سنجیدہ ہے۔ اوباما کا کہنا تھا کہ امریکہ اور پاکستان مختلف معاملات میں ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں اور خطے میں القاعدہ سے وابستہ فورسز کے خلاف حالیہ کامیابیاں پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھیں۔

امریکی قیادت میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب اتحادی فوجی گزشتہ دس برس سے افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیںتصویر: AP

پاکستان اور امریکہ کے درمیان نیا تنازعہ امریکی فوج کے سابق سربراہ ایڈمرل مائیک مولن کے بیانات کے بعد پیدا ہوا۔ انہوں نے کہا تھا کہ حقانی نیٹ ورک کو آئی ایس آئی کی حمایت حاصل ہے۔ دوسری جانب حقانی نیٹ ورک کی جانب سے یہ بیان سامنے آ چکا ہے کہ اب پاکستان میں اس کے مزید ٹھکانے نہیں ہیں اور وہ اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کے لیے افغانستان کو زیادہ محفوظ خیال کرتے ہیں۔

پاکستان کے عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ اس نیٹ ورک کے دس فیصد تک فائٹر ہی پاکستان میں ہیں جبکہ باقی افغانستان میں ہیں۔

 

رپورٹ: ندیم گِل خبر رساں ادارے

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں