انتہا پسندانہ نظریات کی جنگ: حکومتی اکابرین منتشرالخیال؟
عبدالستار، اسلام آباد
12 نومبر 2018
مدرسہ اصلاحات اور انتہا پسندانہ نظریات سے متعلق پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی طرف سے مختلف بیانات اور رویوں نے کئی مبصرین کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا ہے کہ حکومت انتہا پسندانہ نظریات سے نمٹنے کے حوالے سے منتشرالخیال ہے۔
اشتہار
حکومت کے ترجمان اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے نظریات کی جنگ میں علماء اور معاشرے سے مدد مانگی تھی لیکن کئی مبصرین کے خیال میں ایک طرف پی ٹی آئی کے کچھ رہنما اس جنگ میں مدد مانگتے ہیں تو دوسری طرف اس کے اپنے ہی رہنما ایسے مذہبی رہنماؤں کے تعریف کرتے نظر آتے ہیں، جن پر انتہا پسندانہ خیالات پھیلانے کا الزام ہے۔
ماہرین کے خیال میں ملک میں انتہا پسندانہ نظریات کا اس وقت مقابلہ نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ مدارس کا نصاب تبدیل نہ کیا جائے۔ لیکن ان کے خیال میں کوئی بھی حکومت پچھلے اٹھارہ برسوں میں یہ کام نہیں کر سکی۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں خود پی ٹی آئی میں بھی مذہبی رہنماؤں کی تقلید کرنے والے عقیدت مند موجود ہیں، اس لیے مدرسہ اصلاحات یا انتہا پسندانہ نظریات کے خلاف جنگ آسان نہیں۔
احسن رضا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ایک طرف فواد چوہدری اس جنگ میں مدد مانگتے ہیں تو دوسری طرف شہریار آفریدی تبلیغی جماعت کے رہنماؤں سے عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ کئی ماہرین کے خیال میں اس جماعت نے بڑے نرم انداز میں انتہا پسندانہ خیالات کی ترویج کی ہے۔ میوزک، خواتین کے حقوق اور آرٹس کے خلاف فکری کام اس جماعت نے کیا، جس کو نافذ کرنے کے لیے طالبان نے بعد میں طاقت استعمال کی۔ اس کے علاوہ حکومت کے اپنے لوگ اس حوالے سے منتشرالخیال ہیں۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ مدرسہ اصلاحات ہوں گی، جس کا مطلب مدارس کے نصاب میں تبدیلی بھی ہے۔ لیکن اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اس کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔ میرے خیال میں تبدیلی توکیا، یہ اسکولوں میں بھی مولویوں والی سوچ لے آئیں گے۔‘‘
کچھ ماہرین کے خیال میں اصلاحات کی کوششوں کی ناکامی کی ایک وجہ بیرونی دباؤ بھی ہے۔ کئی بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹوں کے مطابق پاکستان میں سعودی امداد سے چلنے والے مدارس نے ملک میں قدامت پرست نظریات اور انتہا پسندانہ سوچ کو فروغ دیا ہے اور اگر پاکستان اس سوچ کو ختم کرنے کے لیے مدارس کا نصاب تبدیل کرتا ہے، تو ریاض کی طرف سے سخت مزاحمت ہو سکتی ہے۔
پاکستان میں تعلیم کی ضرورت کو کیسے پورا کیا جائے ؟
پاکستان میں پرائیویٹ اسکولز، فلاحی ادارے اور دینی مدارس سرکاری اسکولوں کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ پاکستان کے ان 50 ملین بچوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کیا جاسکے جنہیں اسکول جانا چاہیے۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
پاکستان میں 20 ملین بچے اسکول نہیں جاتے
دولاکھ بیس ہزار اسکولوں کے باوجود پاکستان میں 20 ملین بچے اسکول نہیں جاتے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق سن 2010 سے ہر سال حکومت تعلیم کے بجٹ میں سالانہ15 فیصد اضافہ کر رہی ہے لیکن اب بھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
تعلیمی بجٹ 8 ارب ڈالر
اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان اپنے موجودہ بجٹ میں تعلیم پر 2.6 فیصد خرچ کر رہا ہے جو کہ لگ بھگ 8 ارب ڈالر کی رقم بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
مدارس روایتی تعلیمی نظام کا ایک متبادل
دو چھوٹے بچے مری شہر کے ایک مدرسے میں قرآن پڑھ رہے ہیں۔ پاکستان کے بہت سے غریب بچوں کے لیے مدارس روایتی تعلیمی نظام کا ایک متبادل ہیں۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
’معیار اور رویے اہم ہیں‘
پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ کا کہنا ہے کہ ملک میں تعلیمی مسائل پیسے کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اچھے اساتذہ کی کمی کی وجہ سے ہے۔ مشعل اسکولز کی بانی زیبا حسین کا کہنا ہے،’’ اسکولوں کی تعداد اہم نہیں ہے بلکہ معیار اور رویے اہم ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/C. Firouz
اساتذہ پر الزام عائد کرنا درست نہیں
تعلیم کے وفاقی ڈائریکٹر طارق مسعود کا کہنا ہے کہ اساتذہ پر الزام عائد کرنا درست نہیں ہے۔ ان کی نظر میں بڑھتی آبادی اور سرمایے کی کمی سرکاری اسکولوں کے لیے سب سے بڑے چیلنج ہیں۔ انہوں نے روئٹرز کو بتایا،’’ کوئی بھی فرد سرکاری نظام کا حصہ بن ہی نہیں سکتا اگر وہ تعلیم یافتہ اور قابل نہ ہو۔ لیکن پرائیویٹ سیکٹر میں اس حوالے سے زیادہ سختی نہیں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/C. Firouz
زیادہ تر مدرسے حکومتی نگرانی کے بغیر چلتے ہیں
پاکستان میں زیادہ تر مدرسے حکومتی نگرانی کے بغیر چلتے ہیں اور کچھ مدرسوں پر انتہائی سخت تشریحات کے حامل اسلام کی ترویج کی جاتی ہے۔ مری کے النادوا مدرسے کے عرفان شیر کا کہنا ہے،’’ اکثر لوگ اس لیے بچوں کو مدرسوں میں داخل کراتے ہیں کیوں کہ وہ انہیں کھانا مہیا کرتے ہیں اور رہنے کے لیے جگہ دیتے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/C. Firouz
6 تصاویر1 | 6
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار عامر حسین کے خیال میں حکومت کے رویے سے نہیں لگتا کہ وہ مدرسہ اصلاحات کرے گی یا انتہا پسندانہ نظریات کا مقابلہ کرے گی۔ انہوں نے کہا، ’’پی ٹی آئی خود ایک دائیں بازو کی جماعت ہے۔ اس میں بھی کئی افراد انتہا پسندانہ سوچ کے قریب پائے جاتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے لبیک جیسے چھوٹے گروپ کے سامنے ہتھیار ڈالے، تو یہ مدارس کے خلاف کوئی کام یا ان کے نصاب میں کوئی تبدیلی کیسے کر سکتے ہیں؟ پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں مدارس ہیں، جن میں لاکھوں طلبا پڑھتے ہیں۔ وہ سب حکومت کے خلاف سڑکوں پر آ جائیں گے اور یہ حکومت برداشت نہیں کر پائے گی۔ اس کے علاوہ اسے ایوان میں اتنی بڑی اکثریت بھی حاصل نہیں کہ یہ کوئی نیا قانون بنا کر مدارس کے نصاب کو تبدیل کرے۔ سعودی عرب کی خوشنودی بھی حکومت کی ترجیحات میں اہم ہے اور ریاض کبھی بھی نصاب میں کوئی تبدیلی نہیں ہونے دے گا۔‘‘
پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ وہ مدارس کے مذہبی نصاب کو تبدیل یا ختم نہیں کر رہی بلکہ وہ اس میں دنیاوی علوم کا اضافہ کرنا چاہتی ہے۔ پارٹی کے رہنما اسحاق خان خاکوانی کے خیال میں پارٹی کو اس حوالے سے کوئی اندرونی یا بیرونی دباؤ خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔
انہوں نے کہا، ’’مذہبی تعلیم حاصل کرنا اچھی بات ہے۔ لیکن آپ مدرسے میں پڑھنے کے بعد ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان، مؤرخ یا کچھ اور تو بن نہیں سکتے۔ تو ہم چاہتے ہیں کہ مدارس کے طالب علم بھی ریاضی، سائنس، تاریخ، جغرافیہ، طبیعیات اور دیگر علوم پڑھیں تاکہ ان کی تعلیم بھی کارآمد ہو سکے۔ ہم یہ اصلاحات کریں گے اور چاہے سعودی عرب ہو یا کوئی اور ملک، ہمیں ان اصلاحات کے حوالے سے کوئی دباؤ قبول نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
تعلیم کہاں کہاں اور کیسے کیسے
تعلیم ایک بنیادی حق ہے اور سیکھنے کا عمل پوری دنیا میں جاری ہے لیکن بچے کن حالات میں تعلیم حاصل کرتے ہیں؟ یہ عمل پوری دنیا میں بڑا متنوع ہے۔ دنیا کے مختلف اسکولوں کا ایک چھوٹا سا سفر۔
تصویر: Reuters/B. Kelly
افغانستان
مہاجرہ ارمانی افغانستان کے شمالی شہر جلال آباد میں بچیوں کو تعلیم دے رہی ہیں۔ مشکل اور نامساعد حالات کے باوجود اب افغانستان میں اسکول جانے والی چھوٹی عمر کی بچیوں کی تعداد چوہتر فیصد ہو چکی ہے۔
تصویر: Reuters/Parwiz
جاپان
ٹوکیو کے ایک اسکول میں بچے دوپہر کا کھانا کھا رہے ہیں۔ جاپانی نظام تعلیم کا شمار دنیا کے بہترین نظاموں میں ہوتا ہے۔ جاپانی اسکول سسٹم دنیا کے لیے رول ماڈل بن چکا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Hanai
برازیل
برازیل کے ان بچوں کا اسکول مسلسل ہلتا رہتا ہے۔ برازیلی دریاؤں پر بنائے جانے والے ایسے سرکاری اسکولوں کا تعلیمی معیار بہت اچھا نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں کا امیر یا متوسط طبقہ اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں بھیجتا ہے۔
تصویر: Reuters/B. Kelly
امریکا
امریکا کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے لیکن تعلیمی میدان میں امریکا بھی عدم مساوات کا شکار ہے۔ اسکولوں کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ لاطینی امریکی نسل کے بچوں اور سیاہ فاموں کی نسبت سفید فام بچوں کو اچھی تعلیمی سہولیات میسر ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Young
ویتنام
تیسری جماعت کے یہ بچے بغیر بجلی اور بغیر کتابوں کے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ استانی بچوں کو مقامی زبان ’ہمونگ‘ سکھا رہی ہیں۔ لیکن خراب تعلیمی حالات کے باوجود ویتنام کے طالب علم بین الاقوامی ’پیزا سروے‘ میں اپنا مقام بہتر بنا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/Kham
برطانیہ
انگلینڈ میں اسکول یونیفارم پہننے کی ایک طویل روایت ہے۔ جرمنی اور کئی دیگر یورپی ملکوں کے برعکس برطانیہ میں طلبہ کا ایک جیسا لباس ضروری ہے۔ یہ روایت کب اور کہاں سے چلی، واضح نہیں ہے اور نہ ہی ملک میں ایسا کوئی قانون ہے، جو طلبا و طالبات کی یونیفارم سے متعلق وضاحت کرتا ہو۔
تصویر: Reuters/S. Plunkett
پاکستان
پاکستان میں نجی اسکولوں کا معیارِ تعلیم سرکاری اسکولوں سے بہتر سمجھا جاتا ہے لیکن ایسے غریب شہری بھی موجود ہیں، جو اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بھی بھیجنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اسلام آباد کے ماسٹر ایوب کھلے آسمان تلے ایسے ہی غریب اور نادار بچوں کو مفت تعلیم دیتے ہیں۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
مراکش
مراکش کے دارالحکومت رباط میں پرائمری اسکول کے کمرے اکثر رنگین ہوتے ہیں۔ ابتدائی سالوں میں بچوں کے اسکول جانے کی شرح بہت اچھی ہے اور تقریباﹰ بانوے فیصد بچے بچیاں اسکول جاتے ہیں۔ پندرہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ان کی تعداد نصف رہ جاتی ہے۔
تصویر: Reuters/Y. Boudlal
کینیا
اس افریقی ملک میں سن دو ہزار تین سے تمام بچے بغیر کوئی فیس ادا کیے پرائمری اسکول جا سکتے ہیں۔ تاہم اس نئے قانون کے بعد ضروری سرمایہ کاری نہیں کی گئی اور اب اسکولوں میں سہولیات کم اور بچے زیادہ ہیں۔
تصویر: Reuters/N. Khamis
ملائشیا
اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم کے عالمی پروگرام ’پیزا‘ کے مطابق ملائشیا کے اسٹوڈنٹس اپنے آپ خوش قسمت ترین قرار دیتے ہیں۔ اس ملک کی ساٹھ فیصد آبادی مسلمان ہے۔ یہاں بچوں کی ایک بڑی تعداد مدرسوں میں بھی جاتی ہے۔
تصویر: Reuters/O. Harris
یوکرائن
اس ملک میں بچوں کو پہلی کلاس میں ہی کوئی نہ کوئی غیر ملکی زبان سکھانا شروع کر دی جاتی ہے جبکہ کئی اسکولوں میں پانچویں کلاس میں دوسری غیر ملکی زبان سیکھنا بھی لازمی ہوتی ہے۔
تصویر: Reuters/G. Garanich
چلی
لگتا تو نہیں لیکن یہ پہلی کلاس کے طلبا و طالبات ہیں۔ چلی کے دارالحکومت میں یہ خواتین و حضرات شام کی کلاسیں لیتے ہیں۔ چلی میں تعلیمی نظام تقریباﹰ مکمل طور پر نجی شعبے کے پاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں غریب گھرانے اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھجوا سکتے۔