انجلینا جولی کے زیرہدایت بوسنیا میں بننے والی فلم متنازعہ
16 اکتوبر 2010انجلینا بحیثیت ہدایت کارہ اپنی پہلی فلم بوسنیا کے بارے میں بنا رہی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ بوسنیا کے بارے میں یہ فلم اس لئے بنانا چاہتی ہیں تاکہ لوگ یاد رکھیں کہ 1995- 1992 میں جنگ اور نسل کُشی، جس کے نتیجے میں تقریباً ایک لاکھ انسان لقمہ اجل بنے تھے، میں ہوا کیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ یہ فلم بناکر بوسنیا کی جنگ میں بچ جانے والوں کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کروانا چاہتی ہیں۔ جن میں اکثریبت خواتین کی ہے۔
جولی کی اس فلم کی شوٹنگ نومبر میں ساراژیو اوربوسنیا کے مرکزی شہر زینیکا میں ہونا تھی۔ تاہم فلم کی شوٹنگ کا اجازت نامہ منسوخ کردیا گیا کیونکہ بوسنیا کی Women Victims of War نامی ایک تنظیم نے میڈیا کے ذریعے سامنے آنے والی اس خبر کے بعد کہ انجلینا کی یہ فلم دراصل ایک مسلمان عورت اور اُس پر تشدد کرنے والے سرب مرد کے درمیان محبت کی کہانی پر مبنی ہے۔ فلم کی شوٹنگ پر سخت احتجاج کیا گیا اور یوں شوٹنگ کا لائسنس منسوخ کر دیا گیا۔
ہالی وڈ کی آسکر ایوارڈ یافتہ اداکارہ انجیلینا جولی نے اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے UNHCR کی طرف سے جاری کئے گئے ایک بیان میں کہا، ’میں تنظیم ڈبلیو وی ڈبلیو کے کاموں کا بہت احترام کرتی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ میں اس کے اہلکاروں کے ساتھ ذاتی طور پر ملاقات کروں، میں ان سے مل کر اپنی فلم کے بارے میں پائے جانے والی غلط فہمیوں کو دُور کرنا چاہتی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ لوگ میری فلم دیکھے بغیر اس کے بارے میں کوئی رائے قائم نہیں کریں۔‘
ڈبلیو وی ڈبلیوکی ایک اہلکار ’باکیرا ہاسیچچ‘ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ انجیلینا جولی سے ملاقات کی خواہش رکھتی ہیں اور اُن سے بخوشی ملیں گی۔ انہوں نے تاہم کہا، ’ہم جولی کی فلم کا سکرپٹ دیکھنا چاہیں گے۔ ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اُس میں کس حد تک سچ ہے اور کس حد تک بوسنیا کی جنگ کے تاریخی واقعات کوغلط طور پر پیش کیا گیا ہے۔‘
باکیرا ہاسیچچ نے جولی کی فلم کا سکرپٹ نہیں دیکھا ہے، تاہم ان کی تنظیم کے تمام ارکان جو بوسنیا کی جنگ کے وقت جنسی زیادتیوں کا شکار ہوئی تھیں، میڈیا کی خبروں کو بنیاد بنا کر فلم کی سخت مخالفت کر رہی ہیں۔
دریں اثناء بوسنیا کی ایک مقامی فلم ساز کمپنی جو انجلینا جولی کے لئے کام کر رہی ہے کے اہلکاروں نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے اس فلم کے اسکرپٹ کو بوسنیا کی مسلم۔کرواٹ فیڈریشن کی وزارت ثقافت کو بھیج دیا ہے۔ اس فلم ساز ادارے کے ایک نمائندے ایدین سارکچ نے یقین دلایا ہے کہ یہ فلم جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی عورت کی داستان محبت پر مبنی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ پُر امید ہیں کہ س فلم کی شوٹنگ کی اجازت مل جائے گی۔
ادھر جولی کی کمپنی جی کے فلمز نے کہا ہے کہ اگر غلط فہمیوں پر مبنی خبروں کی وجہ سے اُسے بوسنیا میں شوٹنگ کی اجازت نہیں دی گئی تو یہ امر اس پروجیکٹ سے منسلک تمام افراد اور ساراژیو کے مقامی عملے کے لئے باعث شرمندگی ہوگا۔ انجلینا جولی کی اس فلم کو ابھی تک کوئی نام نہیں دیا گیا۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: ندیم گِل