شامی باغیوں کی طرف سے کہا گیا ہے کہ مشرقی حلب سے انخلاء کا عمل بحال کرنے کے لیے ایک نئے معاہدے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ حلب کے مشرقی حصے سے وہاں پھنسے افراد کے انخلاء کا عمل گزشتہ روز معطل ہو گیا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق شامی باغیوں کے ایک ترجمان الفاروق ابوبکر نے حلب سے روئٹرز کو بتایا کہ باغیوں کے محاصرے میں موجود شیعہ آبادی والے دو دیہات، لبنانی سرحد کے قریب حکومت نواز فورسز کے محاصرے میں آئے ہوئے دو شہروں اور حلب کے مشرقی حصے سے مکمل انخلاء کے حوالے سے معاہدہ ہو گیا ہے۔
مشرقی حلب سے انخلاء کا عمل گزشتہ روز اُس وقت رُک گیا تھا جب اس محصور علاقے سے باہر آنے والے ایک چیک پوائنٹ پر فائرنگ کی اطلاع ملی تاہم اس سے قبل مشرقی حلب میں پھنسے ہوئے ہزاروں افراد کو وہاں سے نکالا جا چکا تھا۔ انخلاء کا عمل دوبارہ شروع کرنے کے لیے شامی حکومتی فورسز کی طرف سے شرط رکھی گئی تھی کہ باغیوں کے قبضے میں موجود حلب کے دو شیعہ آبادی والے دیہات الفوعہ اور کفریا علاقوں سے لوگوں کو نکلنے کی اجازت دی جائے۔ شامی حکومت کا مؤقف ہے کہ ان دو علاقوں اور مشرقی حلب سے انخلاء کا عمل بیک وقت شروع کیا جائے تاہم باغیوں کا کہنا تھا کہ ان دونوں کے درمیان کو تعلق نہیں ہے۔
الفاروق ابوبکر کی طرف سے تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ باغی کے محاصرے میں موجود شیعہ آبادی والے دو دیہات الفوعہ اور کفریا سے کتنے لوگوں کو نکلنے کی اجازت دی جائے گی۔ تاہم شام کی صورتحال پر نظر رکھنے والی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کی طرف سے بتایا گیا کہ ان دونوں دیہات سے زخمیوں سمیت قریب چار ہزار افراد کے انخلاء کا عمل آج ہفتے کے روز شروع ہو گا۔
شام میں انسانی بحران کی تکلیف دہ صورتحال
فائربندی سے بھوک کے شکار پریشان حال شامیوں کو عارضی طور پر فائدہ ضرور ہو گا کیونکہ شام کے محصور علاقوں میں پھنسے انسانوں کی صورتحال المیے کی سی ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
حلب کے بچے
شام میں حلب بین الاقوامی خبروں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اب وہاں انخلاء کا عمل جاری ہے۔ یہ تباہ حال شہر جنگ کی ہولناکیوں کی علامت ہے۔ شہر کے مشرقی حصے میں نہ تو پانی ہے، نہ اشیائے خورد نوش اور نہ ادویات۔ عوام کی ایک بڑی تعداد کو سر پر چھت بھی میسر نہیں ہے۔ اس صورتحال میں اس شہر کے ایک لاکھ بچوں کو در در کی ٹھوکریں کھانا پڑ رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
چھ لاکھ انسان گھیرے میں
یہ تصویر مضایا کی ہے۔ اسی طرح کے اٹھارہ دیگر شہر بھی بیرونی دنیا سے کٹ چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق محصور علاقوں میں چھ لاکھ افراد آباد ہیں، جو تنازعے کے فریقین کی وجہ سے اپنے اپنے علاقوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر علاقے اسد حکومت کے زیر قبضہ ہیں۔ دمشق حکومت کی اجازت کے بغیر ان علاقوں میں امددی اشیاء تک نہیں پہنچائی جا سکتیں اور اسد حکام سے اجازت لینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
مزاحمت کی علامت
داریا ان اوّلین شہروں میں شامل ہے، جہاں سے 2011ء میں اسد حکومت کے خلاف مزاحمت کا آغاز ہوا تھا۔ دمشق حکومت نے سالوں تک اس شہر کو گھیرے میں لیے رکھا، جس کی وجہ سے داریا کے باسی بھوک و افلاس کا شکار ہو گئے۔ صورتحال سے تنگ آ کر اگست میں باغیوں نے ہتھیار ڈال دیے، جو ان کی ایک بڑی شکست تھی۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press
ہسپتالوں میں ہنگامی حالت
شام کے زیادہ تر ہسپتالوں میں مریضوں کا علاج ممکن نہیں رہا۔ ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نامی تنظیم کے مطابق، ’’مرہم پٹی کا سامان تو ایک طرف ہسپتالوں میں ادویات تک موجود نہیں ہیں۔ چھوٹے چھوٹے آپریشن تک کرنا ممکن نہیں رہا۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/O. H. Kadour
کوئی جگہ محفوظ نہیں
گزشتہ پانچ مہینوں کے دوران حلب کے محصور مشرقی حصے کے آٹھوں ہسپتالوں کو یا تو نقصان پہنچا ہے یا پھر وہ تباہ ہو چکے ہیں۔ مقامی افراد کے مطابق ابھی بھی کچھ ایسے ڈاکٹرز ہیں، جو اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔ ایک ڈاکٹر کے بقول، ’’خود کو کہیں بھی محفوظ محسوس نہیں کیا جا سکتا‘‘۔
تصویر: picture-alliance/AA/E. Leys
منقسم شہر
حلب حکومتی دستوں اور باغیوں کے مابین تقسیم ہے۔ باغیوں کے زیر قبضہ مشرقی حصے میں حالات انتہائی خراب ہیں۔ اسد حکومت اور روس کی جانب سے روزانہ ہی اس حصے میں بمباری کی جاتی ہے اور روزانہ ہی کئی عمارتیں اور گھر کھنڈر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے دوران حلب میں سینکٹروں عام شہری ہلاک ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Alhalbi
ہر شے کی قلت
حلب میں صرف باغیوں کے زیر اثر علاقوں میں ہی بنیادی اشیاء کی قلت نہیں ہے بلکہ حکومتی فورسز کے قبضے میں جو علاقے ہیں، وہاں کے باسی بھی ان سہولیات سے محروم ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
ویرانی کیوں ہے؟
فضائی حملوں کے ڈر سے حلب کے شہری گھر سے باہر نکلنے کی ہمت کم ہی کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس شہر میں عام زندگی گزارنا اب ممکن نہیں رہا۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
ایک بڑی سی جیل
شام میں تازہ فائر بندی سے عام شہریوں کی زندگی میں تھوڑی سی آسانی ضرور پیدا ہوئی ہے۔ تاہم کسی کو یہ علم نہیں کے حالات کب تبدیل ہو جائیں۔ مقامی افراد کا خیال ہے کہ وہ ’’ایک بڑی سی جیل میں زندگی گزار رہے ہیں‘‘۔