انسانوں میں کورونا وائرس کے انفیکشن کی ابتدا کب ہوئی؟
25 جون 2021
ایک نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ 2019 میں کورونا وائرس کے انفیکشن کے پہلے کیسز چین میں سرکاری ریکارڈ سے کہیں پہلے اکتوبر اور وسط نومبر کے درمیان ظاہر ہوئے ہوں گے۔
تصویر: Getty Images
اشتہار
کورونا وائرس سے متعلق جو نئی تحقیق 25 جون جمعے کے روز شائع ہوئی ہے اس کے مطابق چین میں کووڈ 19 کے پھیلنے کی تاریخ سے متعلق جو سرکاری ریکارڈ موجود ہیں اس سے کہیں پہلے ہی لوگ اس وبا سے متاثر ہو چکے ہوں گے۔ برطانیہ کی کینٹ یونیورسٹی نے برطانیہ کی یونیورسٹی آف کینٹ کے محققین کے ذریعہ نئے ڈیٹا ماڈلنگ میں اس کا اندازہ لگانے کے لیے کنزرویشن سائنسی تکنیک کا استعمال کیا ہے۔
اس کے اندازے کے مطابق سارس-کو -2 سن 2019 میں اکتوبر کے اوائل سے نومبر کے وسط کے درمیان نمودار ہوا ہو گا۔
کودڈ 19 کے پہلے کیسز کب ریکارڈ کیے گئے؟
پی ایل او ایس پیتھوجینز جریدے میں شائع ہونے والے اس تازہ تجزیاتی رپورٹ کے مطابق، کووڈ 19 کا سبب بننے والے وائرس کے ظاہر ہونے کی ممکنہ تاریخ 17 نومبر 2019 رہی ہو گی۔ چین نے سرکاری سطح پر کورونا وائرس کے پھیلنے کی جو تاریخ درج کر رکھی ہے وہ ووہان شہر میں 2019 کے دسمبر کے اوائل کی ہے، جس کا تعلق ہونان میں گوشت اور مچھلی کے بازار سے بتایا جا تا ہے۔
تصویر: MAXPPP/dpa/picture alliance
تاہم ماہرین یہ کہتے رہے ہیں کہ مذکورہ بازار تک وائرس کے پہنچنے سے پہلے ہی یہ لوگوں میں پھیلنے لگا تھا اور لوگ اس سے متاثر ہونا شروع ہو گئے تھے۔
دنیا میں پہلا کیس کب ظاہر ہوا ہوگا؟
رواں برس مارچ میں چین اور عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کی جانب سے کی گئی ایک مشترکہ تحقیق میں بھی کہا گیا تھا کہ ممکن ہے کہ ووہان میں وبا کے پھوٹنے سے پہلے ہی بعض انسانوں میں یہ وائرس پھیلنے لگا ہو۔ جمعے کے روز جو نئی تحقیق شائع ہوئی ہے اس کے مطابق جنوری 2020 کے آس پاس ہی دنیا کے مختلف علاقوں تک یہ وائرس پھیل چکا ہو گا۔
سائنس دانوں کے اندازوں سے پتہ چلتا ہے کہ چین سے باہر کورونا وائرس کے انفیکشن کا پہلا معاملہ تین جنوری کو جاپان میں ہو سکتا ہے۔ اس کے مطابق یورپ میں انفیکشن کا سب سے پہلا کیس 12 جنوری کے آس پاس اسپین ہوا ہو گا جبکہ امریکا میں انفیکشن کا سب سے پہلا کیس 16 جنوری کو ہوا ہو گا۔
ص ز/ ج ا (ڈی پی، اے روئٹرز)
کورونا سے بچنے کے لیے گوبر اور گاؤ موتر کا استعمال
بھارت میں کورونا کے قہر سے بچنے کے لیے لوگ طرح طرح کے نسخے آزما رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کو گائے کے گوبر اور پیشاب میں اس وبا کا علاج نظر آگیا ہے۔
تصویر: Amit Dave/REUTERS
گائے ماتا ہے!
ہندو دھرم میں گائے کو ماں کا درجہ حاصل ہے۔ ہندو گھروں میں گائے کے گوبر سے فرش کی پُتائی کو متبرک سمجھا جاتا ہے۔ گائے سے حاصل ہونے والی پانچ چیزیں (دودھ، دہی، گھی، گوبر اور پیشاب) کافی اہم سمجھی جاتی ہیں۔ مودی حکومت نے ان پر سائنسی تحقیق کے لیے کروڑوں کے بجٹ مختص کیے ہیں۔
کورونا کی وجہ سے ہسپتالوں میں بھی افراتفری کا ماحول ہے۔ آکسیجن اور دواؤں کی کمی کی وجہ سے لوگ کورونا سے بچنے کے لیے گائے کا گوبر اور پیشاب کے لیپ لگوانے کے لیے گاؤشالاؤں میں پہنچ رہے ہیں۔
تصویر: Amit Dave/REUTERS
گاؤ موتر پینے کی تقریب
چند ماہ قبل دارالحکومت دہلی میں ایک ہندو تنظیم نے گاؤ موتر(گائے کا پیشاب) پینے کے لیے باضابطہ تقریب کا اہتمام کیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
پیشاب کے فائدے!
ہندوؤں کے ایک طبقے کا دعویٰ ہے کہ گائے کے پیشاب کے بے شمار طبی فائدے ہیں۔ اس کے پینے سے کورونا وائرس مر جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Qadri
گوبر تھیراپی
وزیر اعظم مودی کی آبائی ریاست گجرات کے احمد آباد میں ان دنوں ایک سینٹر میں گوبر سے باضابطہ علاج کیا جا رہا ہے۔ جسم پر پیشاب اور گوبر کا لیپ لگایا جاتا ہے اور اسے خشک ہونے دیا جاتا ہے۔ بعد میں اس شخص کو دودھ اور دہی سے نہلایا جاتا ہے۔
تصویر: Amit Dave/REUTERS
کوئی سائنسی ثبوت نہیں
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اب تک اس حوالے سے کسی قسم کے سائنسی شواہد نہیں مل سکے ہیں کہ گائے کے پیشاب اور گوبر سے انسانوں کی قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہو۔ ڈاکٹروں کے مطابق یہ صرف ’اعتقاد کا معاملہ اور گمراہی‘ ہے۔
تصویر: Amit Dave/REUTERS
نقصان کا خدشہ
ماہرین صحت نے تنبیہ کی ہے کہ گوبر اور پیشاب کا لیپ لگانے سے فائدے کے بجائے نقصان ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس سے کورونا کے پھیلنے کے خدشات کے ساتھ ساتھ بلیک فنگس کا شکار ہو جانے کے خطرات بھی لاحق ہو سکتے ہیں۔