اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے انسانوں کی اسمگلنگ کے نیٹ ورک سے وابستہ چھ چیدہ افراد پر عالمی پابندیاں نافذ کر دی ہیں، یہ نیٹ ورک لیبیا میں متحرک ہے۔
اشتہار
سفارتی ذرائع کے مطابق سلامتی کونسل کی جانب سے انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف عالمی پابندیوں کے نفاذ کا یہ پہلا موقع ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ان پابندیوں کا نفاذ تب ہوا، جب ہالینڈ کی جانب سے پیش کردہ مسودے پر روس نے اپنے تحفظات ختم کر دیے۔ اس طرح چھ افراد کے ناموں کو اقوام متحدہ کی پابندیوں سے متعلق ’بلیک لسٹ‘ میں داخل کر دیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہےکہ ان افراد پر پابندیوں کا نفاذ فوری طور پر کر دیا گیا ہے۔
افریقہ میں انسانی اسمگلروں کا تعاقب
ڈی ڈبلیو کے صحافی جان فلپ شولز اور آدریان کریش نے نائجیریا میں انسانوں کے اسمگلروں کے بارے میں چھان بین کی۔ اس دوران وہ پیچھا کرتے ہوئے اٹلی تک جا پہنچے لیکن اس سلسلے میں انہیں خاموشی کی ایک دیوار کا سامنا رہا۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
غربت سے نجات
ان دونوں صحافیوں نے انسانی اسمگلروں کی تلاش کا سلسلہ نائجیریا کی ریاست ایدو کے شہر بینن سے شروع کیا۔ یہاں پر ان دونوں کی جس شخص سے بھی ملاقات ہوئی اس کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار یا کوئی دوست یورپ میں رہتا ہے۔ اٹلی میں تین چوتھائی جسم فروش خواتین کا تعلق اسی خطے سے ہے۔ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اس علاقے سے ہونے والی ہجرت کی وجہ ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
جھوٹے وعدے
نن بیبینا ایمناہا کئی سالوں سے خاص طور پر نوجوان لڑکیوں کو یورپ کے سفر سے خبردار کر رہی ہیں، ’’زیادہ تر لڑکیاں جھوٹے وعدوں کے چنگل میں پھنس جاتی ہیں۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ان لڑکیوں سے گھريلو ملازمہ یا دیگر کام کاج کے وعدے کیے جاتے ہیں اور یورپ پہنچنے کی دیر ہوتی ہے کہ یہ جھوٹ عیاں ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے زیادہ تر لڑکیاں جرائم پیشہ گروہوں کے ہاتھ لگ جاتی ہیں۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
انسان لالچی ہے
بہت کوششوں کے بعد ایک انسانی اسمگلر ڈی ڈبلیو کے صحافیوں سے بات کرنے پر راضی ہوا۔اس نے اپنا نام اسٹیو بتایا۔ اس کے مطابق وہ سو سے زائد افراد کو نائجیریا سے لیبیا پہنچا چکا ہے۔ اس نے اپنے گروہ کے پس پردہ رہ کر کام کرنے والے افراد کے بارے میں بتانے سے گریز کرتے ہوئے بتایا کہ وہ صرف ایک سہولت کار ہے۔ اس کے بقول،’’ایدو کے شہری بہت لالچی ہیں اور وہ بہتر مستقبل کے لیے سب کچھ کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
ہجرت کے خطرناک مراحل
اسٹیو کے بقول وہ نائجیریا سے لیبیا پہچانے کے چھ سو یورو لیتا ہے۔ اسٹیو کے مطابق ان میں زیادہ تر کو بخوبی علم ہے کہ صحارہ سے گزرتے ہوئے لیبیا پہنچنا کتنا مشکل اور خطرناک ہے۔ ’’اس دوران کئی لوگ اپنی جان بھی گنوا چکے ہیں۔‘‘ وہ مہاجرین کو نائجر کے علاقے اگادیز تک پہنچاتا ہے، جہاں سے اس کا ایک اور ساتھی ان لوگوں کو آگے لے کر جاتا ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
’اگادیز‘ انسانی اسمگلروں کی آماجگاہ
ریگستانی علاقہ ’ اگادیز‘ ڈی ڈبلیو کے رپورٹر جان فلپ شولز اور آدریان کریش کے سفر کی اگلی منزل تھی۔ ان دونوں کے مطابق یہ علاقہ انتہائی خطرناک ہے۔ یہاں پر انسانی اسمگلر اور منشیات فروش ہر جانب دکھائی دیتے ہیں اور غیر ملکیوں کے اغواء کے واقعات بھی اکثر رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ’اگادیز‘ میں یہ دونوں صحافی صرف مسلح محافظوں کے ساتھ ہی گھوم پھر سکتے تھے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
سلطان کے لیے بھی ایک مسئلہ
اس صحرائی علاقے کے زیادہ تر لوگ انسانی اسمگلنگ کو ایک مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں اور اگادیز کے سلطان عمر ابراہیم عمر کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جسے مقامی سطح پر حل نہیں کیا جا سکتا۔ عمر ابراہیم عمر کا موقف ہے،’’ اگر یورپی یونین چاہتی ہے کہ لوگ بحیرہ روم کے ذریعے یورپ کا سفر نہ کریں تو اسے نائجر کو بھرپور تعاون فراہم کرنا چاہیے۔‘‘
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
’پیر‘ کے قافلے
کئی مہینوں سے ہر پیر کو غروب آفتاب کے بعد کئی ٹرکوں کا ایک قافلہ اگادیز سے شمال کی جانب روانہ ہوتا ہے۔ لیبیا میں سلامتی کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے انسانی اسمگلر بغیر کسی رکاوٹ کے اس ملک میں داخل ہوتے ہوئے بحیرہ روم کے کنارے پہنچ جاتے ہیں۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نائجر کے حکام کو بھی ان سرگرمیوں میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
تعداد بڑھ رہی ہے اور عمر کم ہو رہی ہے
نائجیریا کی زیادہ تر خواتین اٹلی میں جسم فروشوں کے ہاتھ لگ جاتی ہیں۔ سماجی شعبے کی ماہر لیزا بیرتینی کہتی ہیں،’’اعداد و شمار کے مطابق 2014ء میں ایک ہزار سے زائد نائجریئن خواتین بحیرہ روم کے راستے اٹلی پہنچيں۔ 2015ء میں یہ تعداد چار ہزار ہو گئی۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ لڑکیوں کی عمر کم سے کم بتائی جاتی ہے تاکہ ان کی بہتر قیمت وصول کی جا سکے۔
تصویر: DW
’مادام‘ کی تلاش
نائجیریا کے ایک دوست کی مدد سے یہ دونوں صحافی شمالی اٹلی میں ایک مبینہ ’مادام ‘ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ نائجیریا میں ’دلال‘ کو مادام کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ یہ خاتون فلورنیس کے قریب رہتی تھیں۔ ایک نائجیریئن لڑکی نے بتایا، ’’مادام نے ہم پر تشدد کرتے ہوئے ہمیں جسم فروشی پر مجبور کیا۔‘‘
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
جگہ کم لڑکیاں زیادہ
ڈی ڈبلیو کے صحافیوں جان فلپ شولز اور آدریان کریش نے جب ’مادام‘ سے مختلف الزامات کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے تسلیم کیا کہ ان کے گھر میں چھ لڑکیاں موجود ہیں۔ تاہم ساتھ ہی اس نے اس بات کی نفی بھی کی کہ وہ ان لڑکیوں کو جسم فروشی پر مجبور کرتی ہے۔ بعد ازاں ان دونوں صحافیوں نے اس دوران جمع ہونے والی تمام معلومات سے اطالوی حکام کو آگاہ کر دیا تھا۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
غیر فعال ادارے
مونیکا اوشکوے نامی نن نے اس سلسلے میں اطالوی اداروں کی غیر ذمہ داری اور ان کے غیر فعال ہونے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ وہ گزشتہ آٹھ برسوں سے جسم فروشی پر مجبور کی جانے والی خواتین کے لیے کام کر رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ مرد بہت کم پیسوں میں اپنی جنسی ہوس مٹانا چاہتے ہیں اور نائجیریا کی کسی خاتون کے ساتھ صرف دس یورو میں ’سیکس‘ کیا جا سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے لیے امریکی سفیر نِکی ہیلی کے مطابق، ’’لیبیا میں تارکین وطن کو غلام بنا کر فروخت کرنا ہم سب کے ضمیر کے لیے ایک دھچکا ہے۔ سکیورٹی کونسل نے اس پر کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’آج لگنے والی پابندیاں ایک مضبوط اشارہ ہوں گی کہ بین الاقوامی برادری انسانوں کی ٹریفکنگ اور اسمگلنگ میں ملوث افراد کا احتساب ضرور کرے گی۔ ہماری دنیا میں ایسی کوئی جگہ نہیں ہو گی، جہاں انسانی حقوق اور انسانی اقدار کی اس انداز سے خلاف ورزی کی جا سکے گی۔‘‘
عالمی پابندیوں کے تحت یہ افراد دنیا میں کسی بھی ملک کا سفر نہیں کر سکیں گے، جب کہ ان کے تمام اثاثے منجمد ہو جائیں گے۔ ان پابندیوں میں دو افراد کا تعلق ایریٹریا اور چار کا تعلق لیبیا سے ہے۔ کہا گیا ہےکہ اریٹریا سے تعلق رکھنے والے دونوں افراد اس نیٹ ورک کے سرغنہ تھے، جب کہ ان پابندیوں کی زد میں لیبیا کی کوسٹ گارڈ کے ایک علاقائی یونٹ کا سربراہ بھی شامل ہے۔
جنگلی حیات کے اسمگلر جنگی سردار اور جرائم پیشہ گروہ
تصویر: AP
غیر قانونی شکار سلامتی کے لیے خطرہ
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے سلامتی کونسل سے کہا ہے کہ جدید ہتھیاروں سے لیس شکاری وسطی افریقہ کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے سربراہ نے افریقی حکومتوں سے اپیل کی ہے وہ ہاتھیوں، گینڈوں اور شیروں کے غیر قانونی شکار کو قومی اور علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیں۔
تصویر: AP
ہاتھی دانت کی اسمگلنگ دوگنا
جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق حالیہ چند برسوں میں ہاتھی دانت اور گینڈوں کے سینگ کے غیر قانونی کاروبار میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ قدرتی ماحول کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی یونین (IUCN) کے مطابق دنیا بھر میں 2007 سے اب تک ہاتھی دانت کی اسمگلنگ دوگنا ہو گئی ہے۔ صرف سن2011ء میں17 ہزار افریقی ہاتھی مار دیے گئے۔
تصویر: AP
جرائم پیشہ مسلح گروپ بھی ملوث
ماہرین کے مطابق جنگلی حیوانات کی غیر قانونی اسمگلنگ میں جرائم پیشہ مسلح گروہوں کا شامل ہونا شدید باعث تشویش ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اپنی رپورٹ میں یوگینڈا کی ’لارڈ آرمی‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہاتھی دانت بیچ کر ہتھیار خریدتی ہے اور مجرمانہ کارروائیاں سر انجام دیتی ہے۔
تصویر: AP
ہاتھیوں کا قتل عام
اس کاروبار میں جدید ہتھیاروں سے لیس گروہوں کے شامل ہونے کی وجہ سے جنگلی حیوانات کا غیر قانونی شکار بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس سال مارچ کے دوران افریقی ملک چاڈ میں مسلح گروہوں نے ایک ہی ہفتے میں 86 ہاتھیوں کو مشین گن سے ہلاک کیا۔ ان میں سے متعدد ہتھنیاں حاملہ تھیں۔
تصویر: KAREL PRINSLOO/AP/dapd
گینڈے کی بقاء بھی خطرے میں
گینڈے کے لیے ان کے قیمتی سینگ اب اتنے خطرناک ہوگئے ہیں کہ جرائم پیشہ شکاری ان کے حصول کے لیے گینڈے کو ہلاک کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ورلڈ وائلڈ فنڈ کی جرمن شاخ کے مطابق ایک دہائی پہلے تک سال بھر میں تقریبا 12 گینڈے مارے جاتے تھے لیکن اب یہ تعداد بڑھ کر 700 گینڈے سالانہ ہو گئی ہے۔
تصویر: picture alliance/WILDLIFE
ایک وجہ سیاسی عدم استحکام بھی
وسطی افریقہ میں غیر قانونی شکار زیادہ بڑھا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق جرائم پیشہ گروہ علاقے میں سیاسی عدم استحکام کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ افریقی ممالک کیمرون، چاڈ اور گیبون مسلسل عدم استحکام کا شکار ہیں۔
تصویر: Picture-Alliance /dpa
جسمانی اعضاء کا سفر
غیر قانونی شکاریوں سے ہاتھی دانت اور شیر کی کھالوں کو بچولیے خریدتے ہیں اور پھر انہیں کینیا، تنزانیہ اور موزمبیق بھیجا جاتا ہے۔ یہاں سے یہ وسطی اور جنوب مشرقی ایشیا میں بھیجے جاتے ہیں۔ جنگلی حیوانات کے جسمانی اعضاء پھر فلپائن اور ویتنام سے ہو کر دوسرے ملکوں تک پہنچ جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہاتھی دانت کی مانگ اور چین
زیادہ تر غیر قانونی ہاتھی دانت چین پہنچتے ہیں۔ اسے دنیا کی سب سے بڑی ’ہاتھی دانت منڈی‘ کہا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر ہاتھی دانت کی مصنوعات کی 70 فیصد مانگ چین پوری کرتا ہے۔ یہاں ہاتھی دانت پر نقش و نگاری کی جاتی ہے، ان کی مورتیاں بنتی ہیں، زیورات اور تحائف بھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
8 تصاویر1 | 8
پابندیوں کے نفاذ سے قبل روس نے ان افراد کی بابت مزید تفصیلات فراہم کرنے کو کہا تھا۔ روس کا موقف تھا کہ وہ اس بارے میں کوئی فیصلہ کرنے سے قبل مسودے کو تفصیل سے دیکھنا چاہتا ہے اور جاننا چاہتا ہے کہ ان افراد پر یہ پابندیاں کیوں ضروری ہیں۔
روس نے اس سلسلے میں مہیا کیے جانے والے شواہد کی جانچ کے لیے اجلاس بھی بلوایا تھا۔ واضح رہے کہ پابندیوں میں آنے والے یہ افراد جس نیٹ ورک کے اہم ارکان تھے، وہ نیٹ ورک یورپ اور امریکا میں بھی پھیلا ہوا تھا۔