انسانوں کی تجارت کا ساٹھ فیصد نتیجہ، خواتین کا جنسی استحصال
6 جنوری 2019
اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں انسانوں کی تجارت کے مجرمانہ واقعات میں سے قریب ساٹھ فیصد کا نتیجہ متاثرہ انسانوں کے جنسی استحصال کی صورت میں نکلتا ہے۔ ایسے افراد میں اکثریت مجبور خواتین کی ہوتی ہے۔
اشتہار
عالمی ادارے کی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں جرائم پیشہ افراد اور گروہ ہر سال جتنے بھی انسانوں کی تجارت یا اسمگلنگ کرتے ہیں، ان میں سے ہر دس میں سے چھ واقعات کا انجام متاثرہ افراد کا جنسی استحصال یا ان سے جبراﹰ کرائی جانے والی جنسی غلامی ہوتی ہے۔
اس سے بھی زیادہ باعث افسوس اور قابل مذمت بات یہ ہے کہ جنسی استحصال کا نشانہ بننے والے ان انسانوں میں اگرچہ بالغ اور نابالغ مرد بھی ہوتے ہیں تاہم ان کی بہت بڑی اکثریت بچیوں اور خواتین پر مشتمل ہوتی ہے۔
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں قائم اقوام متحدہ کے منشیات اور جرائم کی روک تھام کے دفتر UNODC کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2016ء میں قریب 25 ہزار افراد انسانوں کی تجارت کرنے والے گروہوں کے ہتھے چڑھے اور یہ تعداد اس سے ایک سال قبل (2015ء) کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔
یو این او ڈی سی کے مطابق ان واقعات کی تعداد میں اضافے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب دنیا کے کئی خطوں میں ماضی کے مقابلے میں ایسے جرائم کا پتہ چلانے اور ان کی روک تھام کے انتظامات قدرے بہتر بنائے جا چکے ہیں۔
پھر بھی بہت تشویش کی بات یہ ہے کہ دنیا کے وہ 45 ممالک، جو اپنے ہاں انسانوں کی تجارت سے متعلق باقاعدہ اعداد و شمار ہر سال جاری کرتے ہیں، ان کے ڈیٹا کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ 2016ء تک ایسے جرائم کی شرح میں 2011ء کے مقابلے میں 39 فیصد اضافہ ہو چکا تھا۔
انسانوں کی تجارت ہے کیا؟
اقوام متحدہ کے انسانوں کی تجارت کے خلاف پروٹوکول کے مطابق کوئی بھی فرد یا گروہ انسانوں کی تجارت کا مرتکب اس وقت ہوتا ہے جب وہ ’’ایسے انسانوں تک رسائی حاصل کر کے انہیں اپنے پاس رکھے، انہیں چھپائے رکھے یا ان سے اپنے مفادات وابستہ کرے، جن کا بعد ازاں استحصال کیا جاتا ہے۔‘‘
عالمی ادارے کے مطابق انسانوں کی یہ تجارت اکثر ’قتل کی دھمکیوں، ایذا رسانی اور طاقت کے مجرمانہ استعمال کی مدد سے اغوا، یرغمال بنائے رکھنے، دھوکا دہی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے ایسے طریقوں سے کی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں متاثرین کے مجبور اور لاچار ہونے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کا جسمانی اور جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔‘‘
ساٹھ فیصد متاثرین خواتین
عالمی سطح پر انسانوں کی تجارت سے متاثرہ افراد میں سے 60 فیصد کے قریب خواتین یا بچیاں ہوتی ہیں، جن کا یو این او ڈی سی کے مطابق جنسی استحصال بھی کیا جاتا ہے، جیسے ان کے ساتھ کی جانے والی جنسی زیادتیاں یا پھر ان سے جبری طور پر غلاموں کی سی حالت میں کرائی جانے والی جسم فروشی۔
بین الاقوامی سطح پر خواتین کا اس طرح کا جنسی استحصال زیادہ تر امریکا، یورپ اور جنوب مشرقی ایشیا میں کیا جاتا ہے۔ ان ہزارہا متاثرین میں سے قریب ایک تہائی کو جبری مشقت پر بھی مجبور کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح کا استحصال زیادہ تر افریقہ کے وسیع تر خطوں اور مشرق وسطیٰ میں کیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق انسانوں کی تجارت کا ایک اور درد ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ایسے انسانوں سے اکثر جبراﹰ بھیک بھی منگوائی جاتی ہے اور پھر ان کی مرضی کے خلاف ان کے جسموں سے مختلف اعضاء بھی غیر قانونی طور پر نکال کر بیچ دیے جاتے ہیں۔
نابالغ بچیوں کی تعداد قریب ایک چوتھائی
عالمی ادارے کی اس رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی سطح پر ہر سال جتنے بھی انسانوں کی تجارت کی جاتی ہے، ان میں سے قریب 23 فیصد نابالغ بچیاں ہوتی ہیں، جن کو زیادہ تر جسم فروشی پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس جن مردوں کی تجارت یا اسمگلنگ کی جاتی ہے، ان میں سے بھی کچھ کا تو جنسی استحصال کیا جاتا ہے، لیکن ان کی بہت بڑی اکثریت کو بعد ازاں جبری مشقت پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔
افریقہ میں انسانی اسمگلروں کا تعاقب
ڈی ڈبلیو کے صحافی جان فلپ شولز اور آدریان کریش نے نائجیریا میں انسانوں کے اسمگلروں کے بارے میں چھان بین کی۔ اس دوران وہ پیچھا کرتے ہوئے اٹلی تک جا پہنچے لیکن اس سلسلے میں انہیں خاموشی کی ایک دیوار کا سامنا رہا۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
غربت سے نجات
ان دونوں صحافیوں نے انسانی اسمگلروں کی تلاش کا سلسلہ نائجیریا کی ریاست ایدو کے شہر بینن سے شروع کیا۔ یہاں پر ان دونوں کی جس شخص سے بھی ملاقات ہوئی اس کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار یا کوئی دوست یورپ میں رہتا ہے۔ اٹلی میں تین چوتھائی جسم فروش خواتین کا تعلق اسی خطے سے ہے۔ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اس علاقے سے ہونے والی ہجرت کی وجہ ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
جھوٹے وعدے
نن بیبینا ایمناہا کئی سالوں سے خاص طور پر نوجوان لڑکیوں کو یورپ کے سفر سے خبردار کر رہی ہیں، ’’زیادہ تر لڑکیاں جھوٹے وعدوں کے چنگل میں پھنس جاتی ہیں۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ان لڑکیوں سے گھريلو ملازمہ یا دیگر کام کاج کے وعدے کیے جاتے ہیں اور یورپ پہنچنے کی دیر ہوتی ہے کہ یہ جھوٹ عیاں ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے زیادہ تر لڑکیاں جرائم پیشہ گروہوں کے ہاتھ لگ جاتی ہیں۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
انسان لالچی ہے
بہت کوششوں کے بعد ایک انسانی اسمگلر ڈی ڈبلیو کے صحافیوں سے بات کرنے پر راضی ہوا۔اس نے اپنا نام اسٹیو بتایا۔ اس کے مطابق وہ سو سے زائد افراد کو نائجیریا سے لیبیا پہنچا چکا ہے۔ اس نے اپنے گروہ کے پس پردہ رہ کر کام کرنے والے افراد کے بارے میں بتانے سے گریز کرتے ہوئے بتایا کہ وہ صرف ایک سہولت کار ہے۔ اس کے بقول،’’ایدو کے شہری بہت لالچی ہیں اور وہ بہتر مستقبل کے لیے سب کچھ کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
ہجرت کے خطرناک مراحل
اسٹیو کے بقول وہ نائجیریا سے لیبیا پہچانے کے چھ سو یورو لیتا ہے۔ اسٹیو کے مطابق ان میں زیادہ تر کو بخوبی علم ہے کہ صحارہ سے گزرتے ہوئے لیبیا پہنچنا کتنا مشکل اور خطرناک ہے۔ ’’اس دوران کئی لوگ اپنی جان بھی گنوا چکے ہیں۔‘‘ وہ مہاجرین کو نائجر کے علاقے اگادیز تک پہنچاتا ہے، جہاں سے اس کا ایک اور ساتھی ان لوگوں کو آگے لے کر جاتا ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
’اگادیز‘ انسانی اسمگلروں کی آماجگاہ
ریگستانی علاقہ ’ اگادیز‘ ڈی ڈبلیو کے رپورٹر جان فلپ شولز اور آدریان کریش کے سفر کی اگلی منزل تھی۔ ان دونوں کے مطابق یہ علاقہ انتہائی خطرناک ہے۔ یہاں پر انسانی اسمگلر اور منشیات فروش ہر جانب دکھائی دیتے ہیں اور غیر ملکیوں کے اغواء کے واقعات بھی اکثر رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ’اگادیز‘ میں یہ دونوں صحافی صرف مسلح محافظوں کے ساتھ ہی گھوم پھر سکتے تھے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
سلطان کے لیے بھی ایک مسئلہ
اس صحرائی علاقے کے زیادہ تر لوگ انسانی اسمگلنگ کو ایک مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں اور اگادیز کے سلطان عمر ابراہیم عمر کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جسے مقامی سطح پر حل نہیں کیا جا سکتا۔ عمر ابراہیم عمر کا موقف ہے،’’ اگر یورپی یونین چاہتی ہے کہ لوگ بحیرہ روم کے ذریعے یورپ کا سفر نہ کریں تو اسے نائجر کو بھرپور تعاون فراہم کرنا چاہیے۔‘‘
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
’پیر‘ کے قافلے
کئی مہینوں سے ہر پیر کو غروب آفتاب کے بعد کئی ٹرکوں کا ایک قافلہ اگادیز سے شمال کی جانب روانہ ہوتا ہے۔ لیبیا میں سلامتی کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے انسانی اسمگلر بغیر کسی رکاوٹ کے اس ملک میں داخل ہوتے ہوئے بحیرہ روم کے کنارے پہنچ جاتے ہیں۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نائجر کے حکام کو بھی ان سرگرمیوں میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
تعداد بڑھ رہی ہے اور عمر کم ہو رہی ہے
نائجیریا کی زیادہ تر خواتین اٹلی میں جسم فروشوں کے ہاتھ لگ جاتی ہیں۔ سماجی شعبے کی ماہر لیزا بیرتینی کہتی ہیں،’’اعداد و شمار کے مطابق 2014ء میں ایک ہزار سے زائد نائجریئن خواتین بحیرہ روم کے راستے اٹلی پہنچيں۔ 2015ء میں یہ تعداد چار ہزار ہو گئی۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ لڑکیوں کی عمر کم سے کم بتائی جاتی ہے تاکہ ان کی بہتر قیمت وصول کی جا سکے۔
تصویر: DW
’مادام‘ کی تلاش
نائجیریا کے ایک دوست کی مدد سے یہ دونوں صحافی شمالی اٹلی میں ایک مبینہ ’مادام ‘ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ نائجیریا میں ’دلال‘ کو مادام کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ یہ خاتون فلورنیس کے قریب رہتی تھیں۔ ایک نائجیریئن لڑکی نے بتایا، ’’مادام نے ہم پر تشدد کرتے ہوئے ہمیں جسم فروشی پر مجبور کیا۔‘‘
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
جگہ کم لڑکیاں زیادہ
ڈی ڈبلیو کے صحافیوں جان فلپ شولز اور آدریان کریش نے جب ’مادام‘ سے مختلف الزامات کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے تسلیم کیا کہ ان کے گھر میں چھ لڑکیاں موجود ہیں۔ تاہم ساتھ ہی اس نے اس بات کی نفی بھی کی کہ وہ ان لڑکیوں کو جسم فروشی پر مجبور کرتی ہے۔ بعد ازاں ان دونوں صحافیوں نے اس دوران جمع ہونے والی تمام معلومات سے اطالوی حکام کو آگاہ کر دیا تھا۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
غیر فعال ادارے
مونیکا اوشکوے نامی نن نے اس سلسلے میں اطالوی اداروں کی غیر ذمہ داری اور ان کے غیر فعال ہونے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ وہ گزشتہ آٹھ برسوں سے جسم فروشی پر مجبور کی جانے والی خواتین کے لیے کام کر رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ مرد بہت کم پیسوں میں اپنی جنسی ہوس مٹانا چاہتے ہیں اور نائجیریا کی کسی خاتون کے ساتھ صرف دس یورو میں ’سیکس‘ کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
11 تصاویر1 | 11
اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے یونیسیف کے مطابق دنیا میں ہر سال انسانوں کی تجارت کا نشانہ بننے والے افراد میں نابالغ بچیوں کی تعداد تقریباﹰ 28 فیصدبنتی ہے۔ اس کے علاوہ جن افراد کو انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہوں کے ہاتھ لگ جانے کا سب سے زیادہ خطرہ رہتا ہے، ان میں سے غربت کے شکار افراد کے علاوہ مہاجرین اور تارکین وطن سب سے زیادہ خطرات کا سامنا کرنے والے سماجی گروپ ہیں۔
جرمنی میں صورت حال
جرمنی میں جرائم کی تحقیقات کرنے والے وفاقی ادارے بی کے اے کے اعداد و شمار کے مطابق یورپی یونین کے اس سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں جن جرائم کا پتہ چلایا گیا یا جن کی تفتیش مکمل کی گئی، وہ ظاہر کرتے ہیں کہ سال 2017 میں انسانوں کی تجارت کا شکار بننے والے افراد کی تعداد 671 تھی۔
ان افراد کا جنسی استحصال بھی کیا گیا، ان سے بھیک بھی منگوائی جاتی تھی اور ان میں سے سینکڑوں سے جبری مشقت بھی کرائی جاتی تھی۔ جرمنی میں ایسے متاثرین کی 2017ء میں یہ تعداد 2016ء کے مقابلے میں 25 فیصد زیادہ تھی۔
م م / ع ح / ڈی پی اے، کے این اے
بے دخلی اور انسانی اسمگلنگ کا شکار، روہنگیا کی ہجرت
پناہ کے متلاشی سولہ سو افراد کشتیوں کے ذریعے انڈونیشیا اور ملائشیا کی ساحلوں تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ افراد میانمار کے روہنگیا مسلمانوں اور بنگلہ دیش کے مہاجرین پر مشتمل ہیں۔ ہجرت کی یہ کہانی تصاویر کی زبانی۔
تصویر: Reuters/R: Bintang
ایک روایتی انداز
اتوار دس مئی کو چار کشیتوں کے ایک قافلے میں چھ سو افراد انڈونیشیا کے صوبے آچے پہنچے۔ اسی روز تقریباً ایک ہزار افراد تین مختلف کشیتوں میں شمالی ملائشیا کے سیاحتی علاقے لنگاوی کے ساحلوں پر اترے۔ ان میں کم از کم دو کشتیوں کو مقامی مچھیروں نے ڈوبنے سے بچایا، جس کے بعد کے تمام معاملات پولیس نے اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔
تصویر: Reuters/R. Bintang
بد حالی
ان میں سے کچھ کشتیوں میں گنجائش سے زیادہ مسافر سوار تھے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ انسانی اسمگلرز ممکنہ طور پر ان افراد کو بھوک اور پیاس کی حالت میں بے یار و مددگار چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ کشتیوں کا قافلہ تقریباً ایک ہفتے قبل روانہ ہوا تھا۔ ان میں سے بہت سے افراد کو فوری طبی امداد کی بھی ضرورت تھی۔
تصویر: Reuters/R: Bintang
ایک پُر خطر سفر
ہر سال انتہائی غریب بنگلہ دیشی اور بدھ مت کے پیروکاروں کے اکثریتی ملک میانمار سے ہزاروں روہنگیا مسلمان ملائشیا اور انڈونیشیا پہنچتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق رواں سال کے پہلے تین مہینوں میں پچیس ہزار کے قریب افراد انسانی اسمگلرز کی کشیتوں میں بیٹھ کر یہ سفر کر چکے ہیں۔
تصویر: Asiapics
بے وطن
ینگون حکومت میانمار میں آباد اندازاً آٹھ لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو غیر قانونی بنگلہ دیشی قرار دیتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کے پاس کوئی شناخت نہیں ہے اور نسلی فسادات نے ان میں سے بہت سوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا۔ ایک اندازے کے مطابق 2012ء کے بعد سے تھائی لینڈ پہنچنے والے روہنگیا کی تعداد ڈھائی لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/R: Bintang
جدید اندازِ غلامی
ایک فلاحی تنظیم فورٹیفائی رائٹس کے میتیھو اسمتھ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ روہنگیا ملائشیا پہنچانے کے لیے انسانی اسمگلرز کو دو سو امریکی ڈالر تک دیتے ہیں۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ سفر کے دوران انہیں کھانے پینے کا مناسب سامان مہیا نہیں کیا جاتا ہے اور نہ ہی بیٹھنے یا لیٹنے کے لیے مناسب جگہ دستیاب ہوتی ہے۔ دوران سفر انہیں مارا پیٹا بھی جاتا ہے بعض واقعات میں تو قتل بھی کیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Yulinnas
تھائی لینڈ کا خوف
بعض روہنگیا افراد کو اسمگلرز کی گاڑیوں میں تھائی لینڈ میں داخل ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ اسمگلرز ان افراد کو جنگلوں میں یرغمال بنا لیتے ہیں اور تاوان ادا کرنے کے بعد انہیں آزادی نصیب ہوتی ہے۔ بنکاک حکومت کے ایک حالیہ آپریشن میں پولیس نے جنگلوں میں اجتماعی قبریں دریافت کی ہیں، جس کے بعد بہت سے اسمگلرز نے نئے طریقے اپنانے شروع کر دیے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Sagolj
کارروائی کے نتائج
بنکاک حکومت کے آپریشن کے نتیجے میں جنوبی تھائی لینڈ کے جنگلات میں روہنگیا اور بنگلہ دیشی تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد ملی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ آپریشن شروع ہو نے کے بعد اسمگلرز ان افراد کو چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ ملنے والے پناہ گزینوں سے تھائی حکام پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/Str
مہاجرت کی لہر
جنوب مشرقی ایشیا کو تنازعات، ظلم و ستم اور غربت کی وجہ سے نقل مکانی کی لہر کا سامنا ہے۔ ابھی حال میں بتایا گیا کہ ایشیا پیسیفک ممالک کے تقریباً بارہ ملین افراد نے ہجرت کی، جو کسی بھی خطے میں سب سے بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی ہے۔