انسانوں کی تدفین: ہزاروں برس قبل افیون بھی استعمال ہوتی تھی
21 ستمبر 2022
اسرائیلی ماہرین آثار قدیمہ کو ملنے والے شواہد کے مطابق ہزاروں برس قبل انسانی لاشوں کی تدفین کے وقت آخری رسومات کے دوران افیون بھی استعمال کی جاتی تھی۔ ایسا افیون کی ساڑھے تین ہزار برس پرانی باقیات ملنے کے باعث ممکن ہوا۔
اشتہار
اس بارے میں اسرائیل کے محکمہ آثار قدیمہ اور وائزمین انسٹیٹیوٹ آف سائنس نے اپنی مشترکہ سائنسی چھان بین 2012ء میں اس وقت شروع کی تھی، جب اسرائیل کے وسطی حصے میں یہود نامی قصبے میں کھدائی کے دوران ماہرین کو کانسی کے عہد کے آخری دور کی کئی قبریں ملی تھیں۔
ان قبروں سے ملنے والے تقریباﹰ 3500 سال پرانے برتنوں میں ماہرین کو افیون کی ایسی باقیات ملیں، جن کے تجزیے کے نتائج کے بعد اب یہ کہا جانے لگا ہے کہ اس دور میں اس نشہ آور مادے کو انتقال کر جانے والے انسانوں کی آخری رسومات کے وقت استعال کیا جاتا تھا۔
آثار قدیمہ کی اسرائیلی اتھارٹی نے اب بتایا ہے کہ ماہرین کو پوست کے پھول جیسی دکھائی دینے والی ایک جگہ سے کئی قدیمی برتن ملے۔ یہ نوادرات 14 ویں صدی قبل از مسیح کے دور کے ہیں۔
ماضی میں کئی قدیمی مسودوں سے بھی اس امر کی اشارے ملے تھے کہ تب کنعان میں مردوں کی تدفین کے وقت افیون استعمال کی جاتی تھی۔ ان اشاروں کی روشنی میں ماہرین نے یہ جائزہ لینے کی کوشش کی کہ آیا ان برتنوں کو افیون رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ تو ثابت یہ ہوا کہ ہزاروں سال پرانے ان برتنوں میں سے کم از کم آٹھ میں افیون کی باقیات موجود تھیں۔
اسرائیلی آرکیالوجیکل اتھارٹی کے ایک ماہر رون بیئری نے بتایا، ''یہ برتن مرنے والوں کے اہل خانہ کی طرف سے یا تو قبروں میں کھانے کے ساتھ رکھے جاتے یا پھر آخری رسومات کے دوران استعمال ہوتے تھے۔‘‘
رون بیئری نے بتایا، ''ان رسومات کے دوران مرنے والوں کے اہل خانہ یا ان کی طرف سے کوئی مقامی مذہبی شخصیت مرنے والوں کی روحوں کو بلانے کی کوشش کرتے تھے اور اس عمل کے دوران ذہنی اور فکری تیاری کے لیے افیون استعمال کی جاتی تھی۔‘‘
ساتھ ہی اس ماہر آثار قدیمہ نے یہ بھی کہا، ''اب بھی بہت سی باتوں کا ہمیں علم نہیں۔ ہم یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ تب اس نشہ آور مادے کو دراصل کیسے استعمال کیا جاتا تھا۔ ہم ہزاروں سال پہلے افیون کے اس طرح استعمال کے بارے میں اندازے ہی لگا سکتے ہیں۔‘‘
م م / ا ب ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)
ازمنہ فراعین کے حنوط شدہ لاشوں والے درجنوں تابوتوں کی دریافت
مصر میں ماہرین آثار قدیمہ کو فراعین کے دور کے ایسے درجنوں تابوت ملے ہیں، جو آج بھی بہت اچھی حالت میں ہیں۔ جنوبی مصر میں تین ہزار سال سے بھی زیادہ پرانی حنوط شدہ لاشوں والے یہ تیس تابوت الاقصر میں کھدائی کے دوران ملے۔
تصویر: Reuters/M. Abd El Ghany
آثار قدیمہ کا بیش قیمت خزانہ
ہزاروں سال پرانے لکڑی کے یہ تیس تابوت اور ان میں بند حنوط شدہ انسانی لاشیں اب تک تقریباﹰ اپنی اصلی حالت میں ہیں۔ ماہرین ان قدیمی نوادرات کی دریافت کو جدید آرکیالوجی کے لیے انتہائی سنسی خیز واقعات میں سے ایک قرار دے رہے ہیں۔ مصر میں گزشتہ تقریباﹰ سوا سو سال کے دوران یہ اپنی نوعیت کی عظیم ترین دریافت ہے۔
تصویر: Reuters/M. Abd El Ghany
تین ہزار سال تک انسانی آنکھوں سے اوجھل
ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق ان میں سے پہلا تابوت زمین سے صرف ایک میٹر کی گہرائی میں دریافت ہوا اور اس کے بعد جب مزید کھدائی کی گئی، تو وہاں قریب ہی ایک قطار کی صورت میں انتیس دیگر تابوت بھی رکھے ہوئے ملے۔ قدیم انسانی تہذیب کی شاہد یہ باقیات تین ہزار سال سے بھی زیادہ عرصے تک انسانی آنکھوں سے اوجھل رہیں۔
تصویر: Reuters/M. Abd El Ghany
اگلے سال سے نمائش کے لیے میوزیم میں
یہ نوادرات جنوبی مصر میں آثار قدیمہ کے خزانوں کا عظیم مدفن سمجھے جانے والے علاقے الاقصر میں العساسیف نامی اس قدیمی قبرستان سے ملے، جہاں سے پہلے بھی بہت سے نوادرات مل چکے ہیں۔ قاہرہ حکومت کے مطابق ان نودریافت شدہ نوادرات کو 2020ء میں دوبارہ کھولے جانے والے اور زیادہ بڑے بنا دیے گئے ’گرینڈ ایجِپشن میوزیم‘ میں نمائش کے لیے رکھ دیا جائے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Desouki
تاریخی اسرار کو سمجھنے کی کوشش
مصر میں 1898ء کے بعد سے یہ پہلا موقع ہے کہ ازمنہ قدیم کے اور حنوط شدہ لاشوں والے اتنے زیادہ تابوت اکٹھے ملے ہیں، جو آج بھی حیران کن حد تک اچھی حالت میں ہیں۔ لکڑی کے یہ تابوت ایسے تیار کیے گئے تھے کہ ان کے اندر اور باہر رنگا رنگ نقش و نگار بھی بنے ہیں اور ان پر کھدائی بھی کی گئی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Abd El Ghany
بچوں، کاہن مردوں اور عورتوں کے تابوت
ہزاروں سال قبل یہ تابوت تب انتقال کر جانے والے بچوں اور سماجی طور پر مذہبی رہنماؤں یا کاہنوں کا کردار ادا کرنے والے مردوں اور عورتوں کے لیے تیار کیے گئے تھے۔ اسی لیے یہ سب تابوت ایک سائز کے نہیں ہیں۔ ان تابوتوں میں محفوظ حنوط شدہ انسانی لاشوں کا تعلق فرعونوں کے دور کے 22 ویں حکمران خاندان سے ہے، جس کا اقتدار تین ہزار سال سے بھی پہلے شروع ہو گیا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Abd El Ghany
گرینڈ ایجِپشن میوزیم
ان درجنوں نئے نوادرات کو جلد ہی گیزا کے اہرام کے قریب ’گرینڈ ایجِپشن میوزیم‘ میں منتقل کر دیا جائے گا۔ آج کل اس عجائب گھر کو شائقین کے لیے کھولنے کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ مصر میں دریائے نیل کے کنارے ’بادشاہوں کی وادی‘ کہلانے والے علاقے میں ان تابوتوں کی موجودگی کا علم ہونے کے بعد انہیں کھدائی کر کے زمین سے نکالنے میں تقریباﹰ دو ماہ لگے۔