انسانوں کی سمگلنگ کا شبہ، تین سو بھارتی مسافر روک لیے گئے
23 دسمبر 2023
تنہا سفر کرنے والے تیرہ نابالغ افراد سمیت تین سو سے زائد بھارتی فضائی مسافروں کو فرانس میں حکام نے روک لیا ہے۔ یہ تمام بھارتی باشندے دبئی سے رومانیہ کی لیجنڈ ایئر لائنز کی ایک مسافر پرواز کے ذریعے نکاراگوا جا رہے تھے۔
اشتہار
فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے ہفتہ تیئیس دسمبر کی سہ پہر ملنے والی رپورٹوں کے مطابق بھارت کے ان سینکڑوں باشندوں کو فرانس میں حکام نے اس لیے روکا کہ انہیں شبہ تھا کہ ان مسافروں کا سفر دراصل انسانوں کی سمگلنگ کی ایک کوشش تھا۔
مقامی حکام نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ یہ تمام مسافر جس ایئر بس طیارے میں سوار تھے، اسے بھی حکام نے ابھی تک پیرس سے مشرق کی طرف 150 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع واتری ایئر پورٹ پر روک رکھا ہے۔
ان تمام 303 مسافروں کو لیے یہ طیارہ جمعرات کے روز دبئی سے پرواز کر کے فرانس میں واتری کے ایئر پورٹ پر اترا تھا اور اس کی وہاں لینڈنگ کی وجہ بظاہر 'تکنیکی نوعیت کی‘ بتائی گئی تھی۔
دوسری طرف فرانسیسی حکام نے یہ تصدیق بھی کر دی ہے کہ انہیں اپنے خفیہ ذرائع سے یہ اطلاع ملی تھی کہ اس طیارے کے ذریعے سینکڑوں بھارتی شہریوں کو 'مشتبہ ہیومن ٹریفکنگ‘ کے لیے ایک خاص منزل تک پہنچانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔
فرانس میں واتری کا ہوائی اڈہ جس انتظامی علاقے میں واقع ہے، اس کا نام مارن ہے۔ مارن میں شہری تحفظ کے محکمے کے اعلیٰ حکام نے بتایا کہ جن 300 سے زائد بھارتی شہریوں کو وہاں روکا گیا ہے، ان میں 13 ایسے نابالغ مسافر بھی شامل ہیں، جو اپنے کسی بالغ اہل خانہ کی ہمراہی کے بغیر تنہا سفر کر رہے تھے۔
لیکن اس مسافر پرواز میں سوار کم عمر مسافر صرف وہی نہیں تھے، جو اکیلے سفر کر رہے تھے۔ بتایا گیا ہے کہ طیارے میں سوار مسافروں میں کئی ایسے بچے بھی شامل ہیں، جن کے ساتھ ان کے والدین بھی سفر میں تھے۔ ان نابالغ مسافروں کی عمریں 21 ماہ سے لے کر 17 برس کے درمیان بتائی گئی ہیں۔
اشتہار
مسافروں تک رسائی ممنوع
اے ایف پی کے ایک رپورٹر کے مطابق یہ تمام بھارتی مسافر آج ہفتے کی دوپہر تک واتری ایئر پورٹ میں داخلے کے مقام پر ہی رکھے گئے تھے اور حکام نے ان تک رسائی بھی ناممکن بنا دی ہے۔
ڈی ڈبلیو کے صحافی جان فلپ شولز اور آدریان کریش نے نائجیریا میں انسانوں کے اسمگلروں کے بارے میں چھان بین کی۔ اس دوران وہ پیچھا کرتے ہوئے اٹلی تک جا پہنچے لیکن اس سلسلے میں انہیں خاموشی کی ایک دیوار کا سامنا رہا۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
غربت سے نجات
ان دونوں صحافیوں نے انسانی اسمگلروں کی تلاش کا سلسلہ نائجیریا کی ریاست ایدو کے شہر بینن سے شروع کیا۔ یہاں پر ان دونوں کی جس شخص سے بھی ملاقات ہوئی اس کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار یا کوئی دوست یورپ میں رہتا ہے۔ اٹلی میں تین چوتھائی جسم فروش خواتین کا تعلق اسی خطے سے ہے۔ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اس علاقے سے ہونے والی ہجرت کی وجہ ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
جھوٹے وعدے
نن بیبینا ایمناہا کئی سالوں سے خاص طور پر نوجوان لڑکیوں کو یورپ کے سفر سے خبردار کر رہی ہیں، ’’زیادہ تر لڑکیاں جھوٹے وعدوں کے چنگل میں پھنس جاتی ہیں۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ان لڑکیوں سے گھريلو ملازمہ یا دیگر کام کاج کے وعدے کیے جاتے ہیں اور یورپ پہنچنے کی دیر ہوتی ہے کہ یہ جھوٹ عیاں ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے زیادہ تر لڑکیاں جرائم پیشہ گروہوں کے ہاتھ لگ جاتی ہیں۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
انسان لالچی ہے
بہت کوششوں کے بعد ایک انسانی اسمگلر ڈی ڈبلیو کے صحافیوں سے بات کرنے پر راضی ہوا۔اس نے اپنا نام اسٹیو بتایا۔ اس کے مطابق وہ سو سے زائد افراد کو نائجیریا سے لیبیا پہنچا چکا ہے۔ اس نے اپنے گروہ کے پس پردہ رہ کر کام کرنے والے افراد کے بارے میں بتانے سے گریز کرتے ہوئے بتایا کہ وہ صرف ایک سہولت کار ہے۔ اس کے بقول،’’ایدو کے شہری بہت لالچی ہیں اور وہ بہتر مستقبل کے لیے سب کچھ کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
ہجرت کے خطرناک مراحل
اسٹیو کے بقول وہ نائجیریا سے لیبیا پہچانے کے چھ سو یورو لیتا ہے۔ اسٹیو کے مطابق ان میں زیادہ تر کو بخوبی علم ہے کہ صحارہ سے گزرتے ہوئے لیبیا پہنچنا کتنا مشکل اور خطرناک ہے۔ ’’اس دوران کئی لوگ اپنی جان بھی گنوا چکے ہیں۔‘‘ وہ مہاجرین کو نائجر کے علاقے اگادیز تک پہنچاتا ہے، جہاں سے اس کا ایک اور ساتھی ان لوگوں کو آگے لے کر جاتا ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
’اگادیز‘ انسانی اسمگلروں کی آماجگاہ
ریگستانی علاقہ ’ اگادیز‘ ڈی ڈبلیو کے رپورٹر جان فلپ شولز اور آدریان کریش کے سفر کی اگلی منزل تھی۔ ان دونوں کے مطابق یہ علاقہ انتہائی خطرناک ہے۔ یہاں پر انسانی اسمگلر اور منشیات فروش ہر جانب دکھائی دیتے ہیں اور غیر ملکیوں کے اغواء کے واقعات بھی اکثر رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ’اگادیز‘ میں یہ دونوں صحافی صرف مسلح محافظوں کے ساتھ ہی گھوم پھر سکتے تھے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
سلطان کے لیے بھی ایک مسئلہ
اس صحرائی علاقے کے زیادہ تر لوگ انسانی اسمگلنگ کو ایک مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں اور اگادیز کے سلطان عمر ابراہیم عمر کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جسے مقامی سطح پر حل نہیں کیا جا سکتا۔ عمر ابراہیم عمر کا موقف ہے،’’ اگر یورپی یونین چاہتی ہے کہ لوگ بحیرہ روم کے ذریعے یورپ کا سفر نہ کریں تو اسے نائجر کو بھرپور تعاون فراہم کرنا چاہیے۔‘‘
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
’پیر‘ کے قافلے
کئی مہینوں سے ہر پیر کو غروب آفتاب کے بعد کئی ٹرکوں کا ایک قافلہ اگادیز سے شمال کی جانب روانہ ہوتا ہے۔ لیبیا میں سلامتی کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے انسانی اسمگلر بغیر کسی رکاوٹ کے اس ملک میں داخل ہوتے ہوئے بحیرہ روم کے کنارے پہنچ جاتے ہیں۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نائجر کے حکام کو بھی ان سرگرمیوں میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
تعداد بڑھ رہی ہے اور عمر کم ہو رہی ہے
نائجیریا کی زیادہ تر خواتین اٹلی میں جسم فروشوں کے ہاتھ لگ جاتی ہیں۔ سماجی شعبے کی ماہر لیزا بیرتینی کہتی ہیں،’’اعداد و شمار کے مطابق 2014ء میں ایک ہزار سے زائد نائجریئن خواتین بحیرہ روم کے راستے اٹلی پہنچيں۔ 2015ء میں یہ تعداد چار ہزار ہو گئی۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ لڑکیوں کی عمر کم سے کم بتائی جاتی ہے تاکہ ان کی بہتر قیمت وصول کی جا سکے۔
تصویر: DW
’مادام‘ کی تلاش
نائجیریا کے ایک دوست کی مدد سے یہ دونوں صحافی شمالی اٹلی میں ایک مبینہ ’مادام ‘ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ نائجیریا میں ’دلال‘ کو مادام کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ یہ خاتون فلورنیس کے قریب رہتی تھیں۔ ایک نائجیریئن لڑکی نے بتایا، ’’مادام نے ہم پر تشدد کرتے ہوئے ہمیں جسم فروشی پر مجبور کیا۔‘‘
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
جگہ کم لڑکیاں زیادہ
ڈی ڈبلیو کے صحافیوں جان فلپ شولز اور آدریان کریش نے جب ’مادام‘ سے مختلف الزامات کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے تسلیم کیا کہ ان کے گھر میں چھ لڑکیاں موجود ہیں۔ تاہم ساتھ ہی اس نے اس بات کی نفی بھی کی کہ وہ ان لڑکیوں کو جسم فروشی پر مجبور کرتی ہے۔ بعد ازاں ان دونوں صحافیوں نے اس دوران جمع ہونے والی تمام معلومات سے اطالوی حکام کو آگاہ کر دیا تھا۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
غیر فعال ادارے
مونیکا اوشکوے نامی نن نے اس سلسلے میں اطالوی اداروں کی غیر ذمہ داری اور ان کے غیر فعال ہونے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ وہ گزشتہ آٹھ برسوں سے جسم فروشی پر مجبور کی جانے والی خواتین کے لیے کام کر رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ مرد بہت کم پیسوں میں اپنی جنسی ہوس مٹانا چاہتے ہیں اور نائجیریا کی کسی خاتون کے ساتھ صرف دس یورو میں ’سیکس‘ کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: DW/A. Kriesch/J.-P. Scholz
11 تصاویر1 | 11
ان افراد کو سردی سے بچانے کے لیے کمبل وغیرہ دے دیے گئے ہیں اور ایئر پورٹ میں داخلے کی جگہ کے فوری بعد ایک ہال کے وہ تمام شیشے کے دروازے اور کھڑکیاں بھی ترپالیں ڈال کر ڈھانپ دیے گئے ہیں، جن میں سے ان مسافروں کو دیکھا جا سکتا تھا۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق فرانس کی مقامی اور قومی پولیس نے اس چھوٹے ایئر پورٹ کے متعلقہ ہال اور دیگر انتظامی عمارات تک ہر غیر متعلقہ فرد کی رسائی ممنوع قرار دیتے ہوئے وہاں تک جانے والے تمام راستے بند کر دیے ہیں۔
مسافروں میں سے دو سے پوچھ گچھ جاری
فرانس میں واتری سے اور ملکی دارالحکومت پیرس سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق حکام اس مسافر طیارے میں سوار کُل 303 مسافروں میں سے ان دو افراد سے باقاعدہ تفتیش کر رہے ہیں، جنہیں حراست میں لیا جا چکا ہے۔ ان کے بارے میں شبہ ہے کہ ان کا سینکڑوں افراد کی سمگلنگ کے اس مشتبہ واقعے سے براہ راست تعلق ہے۔
پاکستان میں انسانوں کی اسمگلنگ: اغوا اور پھر جبری مشقت
03:03
اسی دوران رومانیہ کی لیجنڈ ایئر لائنز کے ایک قانونی مشیر نے بتایا کہ فرانسیسی حکام نے اس مسافر طیارے کے عملے کو پوچھ گچھ کے لیے روکا تو تھا مگر اب اسے واتری ایئر پورٹ سے روانگی کی اجازت دی جا چکی ہے۔
مارن میں مقامی حکومتی نمائندوں نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد سے ان کا فرانس میں قریبی بھارتی قونصل خانے کے ساتھ مسلسل رابطہ ہے اور قونصل خانے کے اہلکار بھی باقاعدگی سے واتری ایئر پورٹ آ جا رہے ہیں تاکہ حکام سے پورا تعاون کیا جا سکے۔
پیرس میں حکام کے مطابق اس پورے واقعے کی منظم جرائم کی روک تھام کے لیے سرگرم ایک ایسا قانونی یونٹ چھان بین کر رہا ہے، جسے انسانوں کی سمگلنگ کے مشتبہ واقعات کی تحقیقات میں مہارت حاصل ہے۔