انسانیت کو جھنجھوڑ دینے والی مردہ شیرخوار کی تصویر
عاطف بلوچ31 مئی 2016
جرمن چیریٹی ادارے ’سی واچ‘ نے ایک مردہ شیر خوار کی ایک تصویر جاری کی ہے۔ اس امدادی ادارے کے مطابق اس نے یہ تصویر اس لیے شائع کی تاکہ یورپی رہنما مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے زیادہ فعال ہو سکیں۔
اشتہار
گزشتہ ہفتے لیبیا سے بحیرہ روم کے راستے اٹلی پہنچنے کی کوشش کرنے والے سینکڑوں مہاجرین ہلاک ہوئے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین اور ’سیو دی چلڈرن‘ نامی غیر سرکاری بین الاقوامی ادارے کے مطابق گزشتہ ہفتے تین مختلف حادثات کی وجہ سے سات سو مہاجرین سمندر برد ہئیے جبکہ سینکڑوں دیگر لاپتہ بھی ہو گئے۔
ان حالات میں مہاجرین کی ابتر صورتحال کو مزید نمایاں کرنے کی خاطر Sea Watch نے ایک شیر خوار مردہ بچے کی ایک تصویر شائع کی، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس کی لاش ایک امدادی کارکن کی گود میں ہے۔
بچے کے نیلے پڑ جانے والے ہونٹ یہ پتہ دیتے ہیں کہ وہ پانی میں ڈوب کر ہلاک ہوا۔ یہ بچہ گزشتہ ہفتے بحیرہ روم میں ڈوب گیا تھا۔
جرمن امدادی ادارے ’سی واچ‘ نے اس مہاجر بچے کی شناخت ظاہر نہیں کی۔ تاہم بتایا گیا ہے کہ یہ شیر خوار گزشتہ ہفتے ہی بحیرہ روم میں ڈوب کر ہلاک ہوا۔
جس کشتی میں یہ بچہ سوار تھا، جب وہ حادثے کا شکار ہوئی تھی تو اس پر کم ازکم ساڑھے تین سو دیگر مہاجرین بھی سوار تھے۔
سی واچ نے مطالبہ کیا ہے کہ مہاجرین کی مزید اموات کو روکنے کے لیے یورپی یونین کے رہنماؤں کو فوری ایکشن لینا ہوگا۔ اس امدادی ادارے کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’اگر ہم ایسی تصاویر مزید نہیں دیکھنا چاہتے تو ہمیں ایسے حادثات کو رونما ہونے سے روکنا ہو گا۔‘‘
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ہفتے بحیرہ روم میں ڈوب کر ہلاک ہونے والے مہاجرین میں بہت سے بچے بھی شامل تھے۔
سی واچ کے مطابق، ’’ایسے حادثات اس وقت تک رونما ہوتے رہیں گے جب تک پالیسی سازی کی سطح پر یورپ میں قانونی اور محفوظ داخلے کو ممکن نہیں بنایا جائے گا۔‘‘ اس ادارے کی طرف سے جارہ کردہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یورپی یونین ہی اس انسانی المیے کے خاتمے کو ممکن بنا سکتی ہے۔
سی واچ نے اس ڈوب جانے والے شیر خوار کی تصویر شائع کرنے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یورپی معاشروں میں اس طرح کی تصاویر کو ایک المیے کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے، جو یورپی یونین کی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔ یورپ کو اس وقت دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک کے مہاجرین کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔
اس وقت مہاجرین کی ایک بڑی تعداد یورپ کا رخ کر رہی ہے، جس سے نہ صرف حکومتوں کو انتظامی مسائل کا سامنا ہے بلکہ بہت سے یورپی شہریوں میں بھی خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔
مہاجرین کی کشتی ڈوبنے کے ڈرامائی مناظر
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بحیر روم کو عبور کرنے کی کوشش میں حالیہ ہفتے کے دوران رونما ہونے والے تین حادثوں کے نتیجے میں کم از کم سات سو افراد ہلاک جبکہ دیگر سینکڑوں لاپتہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Handout
عمومی غلطی
ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی اس کشتی میں سوار مہاجرین نے جب ایک امدادی کشتی کو دیکھا تو اس میں سوار افراد ایک طرف کو دوڑے تاکہ وہ امدادی کشتی میں سوار ہو جائیں۔ یوں یہ کشتی توازن برقرار نہ رکھ سکی اور ڈوب گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
اچانک حادثہ
عینی شاہدین کے مطابق اس کشتی کو ڈوبنے میں زیادہ وقت نہ لگا۔ تب یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کشتی میں سوار افراد پتھروں کی طرح پانی میں گر رہے ہوں۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
الٹی ہوئی کشتی
دیکھتے ہی دیکھتے یہ کشتی مکمل طور پر الٹ گئی۔ لوگوں نے تیر کر یا لائف جیکٹوں کی مدد سے اپنی جان بچانے کی کوشش شروع کردی۔ اطالوی بحریہ کے مطابق پانچ سو افراد کی جان بچا لی گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
امدادی آپریشن
دو اطالوی بحری جہاز فوری طور پر وہاں پہنچ گئے۔ امدادی ٹیموں میں ہیلی کاپٹر بھی شامل تھے۔ بچ جانے والے مہاجرین کو بعد ازاں سیسلی منتقل کر دیا گیا، جہاں رواں برس کے دوران چالیس ہزار مہاجرین پہنچ چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
ہلاک ہونے والوں میں چالیس بچے بھی
تازہ اطلاعات کے مطابق جہاں ان حادثات میں سات سو افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، وہیں چالیس بچوں کے سمندر برد ہونے کا بھی قوی اندیشہ ہے۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
حقیقی اعدادوشمار نامعلوم
جمعے کو ہونے والے حادثے میں ہلاک یا لاپتہ ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں ابھی تک کوئی معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔
تصویر: Reuters/EUNAVFOR MED
مہاجرین کو کون روکے؟
ایسے خدشات درست معلوم ہوتے نظر آ رہے ہیں کہ ترکی اور یورپی یونین کی ڈیل کے تحت بحیرہ ایجیئن سے براستہ ترکی یونان پہنچنے والے مہاجرین کے راستے مسدود کیے جانے کے بعد لیبیا سے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد بڑھ جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Marina Militare
عینی شاہدین کے بیانات
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی آنکھوں سے مہاجرین کی کشتیوں کوڈوبتے دیکھا، جن میں سینکڑوں افراد سوار تھے۔ یہ تلخ یادیں ان کے ذہنوں پر سوار ہو چکی ہیں۔
تصویر: Getty Images/G.Bouys
سینکڑوں ہلاک
گزشتہ سات دنوں کے دوران بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیون کو تین مخلتف حادثات پیش آئے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ان حادثات کے نتیجے میں کم ازکم سات سو افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں لاپتہ ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
بحران شدید ہوتا ہوا
موسم سرما کے ختم ہونے کے بعد شمالی افریقی ملک لیبیا سے یورپی ملک اٹلی پہنچنے والے افراد کی تعداد میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ اطالوی ساحلی محافظوں نے گزشتہ پیر سے اب تک کم ازکم چودہ ہزار ایسے افراد کو بچایا ہے، جو لیبیا سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرہ روم میں بھٹک رہے تھے۔