انسانی اسمگلروں پر مقدمات چلانا ضروری ہے، بان کی مون
21 دسمبر 2016اقوام متحدہ کے عنقريب سبکدوش ہونے والے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے پندرہ رکنی سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کو اِس وقت انسانی اسمگلنگ کے انتہائی پیچیدہ مسئلے کا سامنا ہے اور ضرورت اِس بات کی ہے کہ دنیا کا ہر ملک اس معاملے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے فوجداری تفتیش کا عمل شروع کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کرے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اِس گھناؤنے فعل میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانا لازمی ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں عالمی سطح پر انسانی اسمگلنگ کی گھمبیر صورتحال پر کھلے عام (اوپن) مباحثے کا اغاز ہوا ہے۔ اس مباحثے میں مسلح تنازعات کے شکار علاقوں سے انسانوں کی غیر قانونی انداز میں یورپ کی جانب منتقلی کو خاص طور زیر بحث لایا گیا۔ بان کی مون نے اِس تناظر میں کہا کہ انتہاپسند جہادی گروپوں کے متحرک ہونے سے بھی صورت حال میں پیچیدگی پیدا ہوئی ہے۔
اس مناسبت سے نائجیریا اور کیمرون میں عسکریت پسند تنظیم بوکو حرام، صومالیہ اور کینیا میں انتہا پسند الشباب، لیبیا، تیونس کے علاوہ شام و عراق میں پہلے القاعدہ اور اب ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی مسلح کارروائیوں سے بے گھر ہونے والی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔ ان علاقوں سے گھر بار چھوڑنے والے لوگوں کو ترغیب دی گئی کہ وہ یورپ کی جانب رخ کریں اور پھر مہاجرین کا سیلاب یورپ کی جانب بڑھنا شروع ہو گیا۔ بان کی مون کے مطابق عسکریت پسند تنظیموں کی مسلح کارروائيوں کے متاثرین کے نام پر بھی انسانی ٹریفکنگ کے سلسلہ میں اسمگلروں نے شدت پیدا کر رکھی ہے۔
اِس مباحثے کے بعد سلامتی کونسل نے انسانی اسمگلنگ کے خلاف پیش کردہ قرارداد کی منظوری مشترکہ طور پر دی۔ یہ قرارداد اسپین نے تیار کر کے پیش کی تھی۔ اس قرارداد کا بنیادی مقصد تنازعات کے شکار علاقوں سے انسانی ٹریفکنگ کو روکنے کے لیے عالمی کوششوں کو تحریک دینا ہے۔
سلامتی کونسل کے اجلاس میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے منشیات اور جرائم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر یُوری فیڈوٹوف نے بتایا کہ اس وقت دنیا کے 106 ملک ایسے ہیں جہاں انسانی اسمگلنگ کی نشاندہی کی جا چکی ہے۔ فیڈوٹوف کے مطابق 158 ملکوں نے انسانی اسمگلنگ کے مختلف پہلووں کو جرم قرار دے کر عدالتی کارروائی شروع کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ابھی تک اس گھناؤنے کاروبار کو روکنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔