چند یورپی ممالک کو غیرقانونی تارکین وطن کی مسلسل آمد کا سامنا ہے۔ انہیں یورپی ملکوں تک پہنچانے والے اسمگلروں کے خلاف یورپی ممالک نے عملی اقدامات شروع کر دیے ہیں۔
اشتہار
اٹلی کے وزیر داخلہ مارکو مِنیٹی نے لیبیا کے مختلف شہروں کے میئروں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ مارکو مِننیٹی ہفتہ چھبیس اگست کو لیبیا کے دارالحکومت طرابلس پہنچے تھے۔ اُن کی آمد کا مقصد انسانی اسمگلنگ کی پرزور انداز میں حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ ان اسمگلروں کے خلاف رواں برس کے اوائل میں دونوں ملکوں کے درمیان ایک مفاہمت پر دستخط ہو چکے ہیں اور اب اٹلی اُس کو عملی صورت دینے کی کوشش میں ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ اٹلی میں اگلے برس ہونے والے پارلیمانی انتخابات کا سب سے اہم موضوع تارکین وطن ہے۔ موجودہ حکومت الیکشن سے قبل ایسے مثبت اقدامات کرنے کی کوشش میں ہے کہ جو عوام کواُن کی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب راغب کر سکیں۔ دوسری صورت میں دائیں بازو کی جماعتیں انتخابات میں کامیابی حاصل کر سکتی ہیں۔
چند لیبیائی شہروں کے میئروں کے ساتھ ہونے والی میٹنگ میں اقوام متحدہ کی یونٹی حکومت کے وزیر داخلہ العارف الخوجہ بھی شریک تھے۔ اس میٹنگ میں شمالی افریقی ملک کے چند شہروں میں ڈیرے ڈالے ہوئے انسانی اسمگلروں اور اُن کی کارروائیوں کو پوری طرح کنٹرول کی ضرورت کو اہم قرار دیا گیا ہے۔ اطالوی وزیر داخلہ کا خیال ہے کہ لیبیا میں فعال انسانی اسمگلروں میں بعض منظم جرائم پیشہ گروہ ہیں، جو اس گھناؤنے عمل کو کاروبار بنائے ہوئے ہیں۔
اس میٹنگ میں تقریر کرتے ہوئے اطالوی وزیر داخلہ نے کہا کہ لیبیا اور اِس کے قریبی ہمسایہ افریقی ملکوں کے نوجوانوں کو امید افزاء مستقبل کی ضرورت ہے اور وہ اپنی زندگیوں کو جرائم پیشہ تنظیموں کے حوالے مت کریں۔ انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے سلسلے میں لیبیا کے کوسٹ گارڈز کی تربیت کا سلسلہ بھی جاری ہے تا کہ وہ بھی سمندر میں فعال ہو کر انسانوں کو موت کے راستے پر روانہ ہونے سے بچا سکیں۔
لیبیا کی مختلف ساحلی پٹیاں اس وقت انسانی اسمگلنگ کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔ غیر معروف اور انتہائی کم استعمال ہونے والے ساحلی مقامات سے انسانی اسمگلر افریقی ممالک کے تارکین وطن کو ناکارہ اور پلاسٹک کی کشتیوں پر سوار کر کے اٹلی، یونان اور اسپین کے ساحلی مقامات اور جزائر تک پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
مہاجرین کی کشتی ڈوبنے کے ڈرامائی مناظر
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بحیر روم کو عبور کرنے کی کوشش میں حالیہ ہفتے کے دوران رونما ہونے والے تین حادثوں کے نتیجے میں کم از کم سات سو افراد ہلاک جبکہ دیگر سینکڑوں لاپتہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Handout
عمومی غلطی
ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی اس کشتی میں سوار مہاجرین نے جب ایک امدادی کشتی کو دیکھا تو اس میں سوار افراد ایک طرف کو دوڑے تاکہ وہ امدادی کشتی میں سوار ہو جائیں۔ یوں یہ کشتی توازن برقرار نہ رکھ سکی اور ڈوب گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
اچانک حادثہ
عینی شاہدین کے مطابق اس کشتی کو ڈوبنے میں زیادہ وقت نہ لگا۔ تب یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کشتی میں سوار افراد پتھروں کی طرح پانی میں گر رہے ہوں۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
الٹی ہوئی کشتی
دیکھتے ہی دیکھتے یہ کشتی مکمل طور پر الٹ گئی۔ لوگوں نے تیر کر یا لائف جیکٹوں کی مدد سے اپنی جان بچانے کی کوشش شروع کردی۔ اطالوی بحریہ کے مطابق پانچ سو افراد کی جان بچا لی گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
امدادی آپریشن
دو اطالوی بحری جہاز فوری طور پر وہاں پہنچ گئے۔ امدادی ٹیموں میں ہیلی کاپٹر بھی شامل تھے۔ بچ جانے والے مہاجرین کو بعد ازاں سیسلی منتقل کر دیا گیا، جہاں رواں برس کے دوران چالیس ہزار مہاجرین پہنچ چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
ہلاک ہونے والوں میں چالیس بچے بھی
تازہ اطلاعات کے مطابق جہاں ان حادثات میں سات سو افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، وہیں چالیس بچوں کے سمندر برد ہونے کا بھی قوی اندیشہ ہے۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
حقیقی اعدادوشمار نامعلوم
جمعے کو ہونے والے حادثے میں ہلاک یا لاپتہ ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں ابھی تک کوئی معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔
تصویر: Reuters/EUNAVFOR MED
مہاجرین کو کون روکے؟
ایسے خدشات درست معلوم ہوتے نظر آ رہے ہیں کہ ترکی اور یورپی یونین کی ڈیل کے تحت بحیرہ ایجیئن سے براستہ ترکی یونان پہنچنے والے مہاجرین کے راستے مسدود کیے جانے کے بعد لیبیا سے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد بڑھ جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Marina Militare
عینی شاہدین کے بیانات
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی آنکھوں سے مہاجرین کی کشتیوں کوڈوبتے دیکھا، جن میں سینکڑوں افراد سوار تھے۔ یہ تلخ یادیں ان کے ذہنوں پر سوار ہو چکی ہیں۔
تصویر: Getty Images/G.Bouys
سینکڑوں ہلاک
گزشتہ سات دنوں کے دوران بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیون کو تین مخلتف حادثات پیش آئے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ان حادثات کے نتیجے میں کم ازکم سات سو افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں لاپتہ ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
بحران شدید ہوتا ہوا
موسم سرما کے ختم ہونے کے بعد شمالی افریقی ملک لیبیا سے یورپی ملک اٹلی پہنچنے والے افراد کی تعداد میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ اطالوی ساحلی محافظوں نے گزشتہ پیر سے اب تک کم ازکم چودہ ہزار ایسے افراد کو بچایا ہے، جو لیبیا سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرہ روم میں بھٹک رہے تھے۔