انسانی، شہری حقوق کے کئی سرگرم سعودی کارکن تاحال جیلوں میں
26 فروری 2022اگر سب کچھ یوں ہی رہا، تو مشہور سعودی بلاگر رائف بدوی کو اگلے ہفتے قریب دس برس بعد جیل سے رہا کر دیا جائے گا۔ وہ اپنے بلاگ 'فری سعودی لبرلز‘ کی وجہ سے تقریباﹰ ایک دہائی جیل سے میں ہیں۔ بدوی کو سن 2014 میں اسلام کی توہین اور مذہب اور ریاست میں علیحدگی کے الزامات کے تحت سزا سنائی گئی تھی۔
انسانی حقوق کی کارکن سعودی شہزادی بسمہ تین برس بعد جیل سے رہا
بدوی سعودی عرب کے ایک اہم قیدی ہیں لیکن ان کے علاوہ بھی کئی ان جیسے الزامات رکھنے والے افراد قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ اس کا تعین کرنا ممکن نہیں کہ رائف بدوی جیسے کتنے دوسرے افراد جیلوں میں ہیں۔
سعودی حکومت کے مطابق اس وقت ملکی جیلوں میں حقوق کے لیے سرگرم قیدیوں کی تعداد صفر ہو چکی ہے لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ایسے سرگرم کارکنوں کی تعداد اب بھی تین ہزار کے قریب ہے۔
قیدیوں کی رہائی
گزشتہ موسم گرما میں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم رہنے والی کئی زیر حراست خواتین بشمول نسیمہ السادہ اور سمر بدوی کو رہا کر دیا گیا تھا۔ سمر بدوی بلاگر رائف بدوی کی بہن ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا ان خواتین کی رہائی کے حوالے سے کہنا ہے کہ یہ درست نہیں کہ سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورتِ حال بہتر ہو رہی ہے۔
یورپی اراکین پارلیمان کی سعودی انسانی حقوق کے علمبرداروں کی حمایت
اس تنظیم کے مطابق قید سے رہائی پانے والی خواتین کو سفر کی اجازت نہیں اور انہیں معطل سزاؤں کا سامنا ہے۔ سعودی حکام توقع کرتے ہیں کہ یہ افراد دوبارہ مجرمانہ سرگرمیوں کا حصہ نہیں بنیں گے۔ یہ تفصیل ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رواں برس کی سالانہ رپورٹ میں بیان کی ہے۔
جاسوسی اور تشدد کے الزامات
سن 2021 میں رہائی پانے والوں میں ویمنز رائٹس کی سرگرم خاتون لجین الہذول کو بھی رہا کیا گیا تھا۔ یہ اس گروپ سے تعلق رکھتی ہیں، جس نے سعودی عرب میں خواتین کو کاریں چلانے کی اجازت دیے جانے کے لیے مہم شروع کی تھی۔
الہذول کو سن 2018 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کی گرفتاری کے تین ہفتے بعد ملکی خواتین کو ڈرائیونگ کی باضابطہ اجازت دے دی گئی تھی۔ ایامِ اسیری کے دوران الہذول کا خاندان مسلسل ان پر کیے جانے والے تشدد کے حوالے سے حکام پر الزامات لگاتا رہا تھا۔
نیند سے دوری اور بجلی کے جھٹکے
سن 2018 میں ایک امدادی ورکر عبد الرحمٰن السادان کو سعودی پولیس نے حراست میں لیا تھا۔ السادان انٹرنیشنل ہلالِ احمر کے لیے کام کرتے تھے۔ ان کو گرفتاری کے تین برس بعد سن 2021 میں عدالت نے بیس برس کی سزائے قید سنائی تھی۔
ان کا جرم بھی انسانی حقوق کے حوالے سے تنقیدی کلمات اور ایک فرضی نام کے ساتھ ٹوئٹر پر اظہار رائے تھا۔ السادان کی ایک بہن اریج امریکا میں مقیم ہیں۔ انہوں نے معتبر امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ سعودی حکام ان کے بھائی کو ابتدائی تین برسوں کی حراست کے دوران مسلسل تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔
سعودی عرب: مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن اور سختیاں جاری
اس تشدد کے دوران بجلی کے جھٹکے لگانے کے علاوہ کوڑے مارنے، نیند کے بغیر رکھنے، موت کی دھمکیاں دینے اور زبانی تذلیل اور قید تنہائی جیسے ہتھکنڈے بھی استعمال کیے جاتے تھے۔ السادان کی بہن کے مطابق ان کے بھائی سے دوران قید ایسی دستاویزات پر زبردستی دستخط بھی کرائے گئے، جنہیں بعد میں ان کے خلاف بطور ثبوت عدالت میں پیش کیا گیا۔
انسانی حقوق کے ایک اور کارکن محمد عُتبیٰ کو انسانی حقوق کی ایک تنظیم یونین فار ہیومن رائٹس قائم کرنے پر سن 2013 میں سترہ سال کی سزائے قید سنائی گئی تھی۔ اس تنظیم نے سعودی حکام سے اس کے قیام کی باقاعدہ اجازت مانگی تھی۔
ادیب اور مصنف کے لیے بھی کوئی استثنیٰ نہیں
السادان کے ساتھ عربی زبان کے ایک فلسطینی نژاد شاعر اور مصنف اشرف فیاض بھی سن 2013 سے جیل میں بند ہیں۔ اشرف فیاض پر عائد الزامات میں عورتوں سے ناجائز تعلقات اور سیکولر نظریات کی حامل تحریریں شامل ہیں۔
ان کی شاعری کی ایک کتاب کو خلاف مذہب قرار دے دیا گیا۔ ایک ماتحت عدالت نے عائد کردہ الزامات کے تحت سن 2015 میں فیاض کو موت کی سزا سنائی تھی مگر پھر سن 2016 یہ سزا موقوف کر کے اسے آٹھ برس کی سزائے قید اور آٹھ سو درے مارے جانے میں تبدیل کر دیا گیا۔ سن 2020 میں سعودی حکومت نے انہیں کوڑے مانے کی سزا ختم کر دی تھی۔
سعودی عرب: چھبیس سالہ نوجوان کو سزائے موت دے دی گئی
شامی ادیب یٰسین الحاج صالح نے اشرف فیاض کے مقدمے کو باعثِ شرم قرار دیا ہے۔ الصالح مصنفین کی بین الاقوامی تنظیم پین کی جرمن شاخ سے منسلک ہیں۔
پین کے مطابق دنیا میں تین ممالک ایسے ہیں جہاں ادیبوں اور مصنفین کو بھی جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ ممالک چین، ترکی اور سعودی عرب ہیں۔
کَیرسٹن کنِپ (ع ح / م م)