1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخیورپ

’انسانی چڑیا گھر‘: یورپ کا نسل پرستانہ اور بھیانک ماضی

23 اپریل 2023

نوآبادیاتی یورپ میں ’انسانی چڑیا گھر‘ عام تھے۔ 15ویں صدی کے اوائل میں نوآبادیاتی علاقوں سے لوگوں کو اغوا کیا اور نمائش کے لیے یورپ لایا جاتا۔ 19ویں صدی کے آخر تک ایسی انسانی نمائشیں منافع بخش کاروبار بن چکی تھیں۔

Belgien Tervuren | Ausstellung Africa Museum Expo | Temporary exphibition Human Zoo
تصویر: RMCA Tervuren

ایسے لاچار انسانوں کو یورپی تہذیب  کی نام نہاد ''برتری‘‘ ظاہر کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ یورپی کالونیوں کے لوگوں کو جھوٹے بہانوں سے اور طاقت کے بل بوتے پر یورپ لے جایا گیا اور پھر انہیں نامساعد حالات میں کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔

انہیں اکثر تماشائیوں کے سامنے ’’وحشی، درندوں یا آدم خور جانوروں‘‘ کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔

آج تک پورے یورپ میں نوآبادیاتی دور کے ایسے جرائم کا سرکاری طور پر بہت کم اعتراف کیا گیا ہے اور عوامی سطح پر بھی اس حوالے سے آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔

ہیمبرگ میں ’انسانی چڑیا گھر‘

سن 1874 میں ہیمبرگ کے تاجر کارل ہاگن بیک چڑیا گھروں میں جانوروں کے ساتھ ساتھ انسانوں کی نمائش کرنے والے اولین یورپی تاجروں میں سے ایک تھے اور جلد ہی یہ بزنس مین ایک کامیاب ''ایتھونوگرافی شو مین‘‘ بن گیا۔

اس تاجر کی ہاگن بیک کمپنی آج بھی اسی نام سے موجود ہے اور ہیمبرگ میں مرکزی چڑیا گھر چلاتی ہے۔ شمالی جرمنی کی اس کمپنی نے 1930 کی دہائی تک انسانی نمائشوں سے پیسہ کمایا۔

ہاگن بیک کمپنی آج بھی اسی نام سے موجود ہے اور ہیمبرگ میں مرکزی چڑیا گھر چلاتی ہےتصویر: Axel Heimken/dpa/picture alliance

مورخ یورگن سیمرر نے حال ہی میں جرمن نشریاتی ادارے این ڈی آر کو بتایا کہ ان چڑیا گھروں میں لوگوں کو ’’ایک ایسے ماحول میں دکھایا جاتا تھا، جسے جان بوجھ کر قدیم ہونے کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔‘‘

دوسری جانب کارل کے پڑپوتے کلاوز ہاگن بیک نے ایسی نمائشوں کو بے ضرر ثابت کرنے کے لیے کہا کہ یہ اُس وقت کی ایک ''آرٹ فارم‘‘ تھی۔ ہیمبرگ چڑیا گھر نے تب سے کہہ رکھا ہے کہ وہ اپنے ماضی کا دوبارہ جائزہ لے رہا ہے لیکن فی الحال چڑیا گھر میں اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ وہاں انسانوں کو دکھایا جاتا تھا اور نہ ہی متاثرہ انسانوں کی یاد منانے کی کسی کوشش کا کوئی ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔

پرتگال کی عالمی نمائش

ایک اور بڑی یورپی نوآبادیاتی طاقت پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں سن 1940 کو ہونے والی عالمی نمائش کے دوران انسانوں کو بھی دکھایا گیا۔ پرتگالی ڈکٹیٹر انٹونیو ڈے اولیویرا سالازار نے اس عالمی نمائش کو نوآبادیاتی دور کی تعریف اور اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا اور آج پرتگال کے نوآبادیاتی ماضی کے بارے میں بحث اکثر اسی تک مرکوز رہتی ہے۔

 لزبن یونیورسٹی کی مورخ ایلسا پیرالٹا کا خیال ہے کہ یہ ناکافی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’جمہوری دور کا اہم بیانیہ یہ ہے کہ نوآبادیاتی دور کے جرائم کا تعلق آمریت سے تھا۔ لیکن یہ بیانیہ پرتگال کی نوآبادیاتی تاریخ کی طویل مدت کی عکاسی نہیں کرتا۔‘‘

پرتگالی ڈکٹیٹر انٹونیو ڈے اولیویرا سالازار نے اس عالمی نمائش کو نوآبادیاتی دور کی تعریف اور اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیاتصویر: CPA Media Co. Ltd/picture alliance

پیرالٹا مزید بتاتی ہیں، ’’یہاں تک کہ  وہ یادگاری تختی بھی، جو 'انسانی چڑیا گھر‘ کے متاثرین کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے، واضح طور پر سالازار دور کا حوالہ دیتی ہے۔‘‘ انہوں نے نشاندہی کی کہ بہت سے پرتگالی لوگ ماضی کی ان نسل پرستانہ نمائشوں سے لاعلم ہیں لیکن حالیہ برسوں میں ملک کے نوآبادیاتی ماضی کے بارے میں عوامی بحث بڑھ رہی ہے۔

بیلجیم کا ’انسانی چڑیا گھر‘

بیلجیم میں سن 1958 کے آخر میں برسلز ورلڈ فیئر کے دوران ''انسانی چڑیا گھر‘‘ میں لوگوں کو نمائش کے لیے رکھا گیا۔ وہاں بھی گزشتہ چند برسوں کے دوران ملک کے نوآبادیاتی جرائم کے بارے میں بحث تیز ہوئی ہے۔

نسل پرستی کے خلاف یورپی نیٹ ورک (ای این اے آر) کی رکن اور ماہر بشریات سٹیلا نیانچاما اوکیموا کے مطابق یہ ضروری ہے کہ بیلجیم کا معاشرہ نوآبادیاتی ماضی کے صدمے کو تسلیم کرے لیکن ایسا کرنے کے لیے بہت کم آمادگی دکھائی دیتی ہے۔

سن 2020 کے ایک سروے کے مطابق ملک کی نصف آبادی کا خیال تھا کہ کانگو میں بیلجیم کے نوآبادیاتی نظام کے منفی سے زیادہ مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں۔

بیلجیم میں سن 1958 کے آخر میں برسلز ورلڈ فیئر کے دوران ''انسانی چڑیا گھر‘‘ میں لوگوں کو نمائش کے لیے رکھا گیاتصویر: Vasily Yegorov/TASS/IMAGO

مؤرخ این ڈریسباخ کے مطابق 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں فلم، ٹیلی ویژن اور بڑے پیمانے پر سیاحت کے پھیلاؤ نے ''غیر ملکی‘‘ لوگوں کو دیکھنے کا طریقہ  یا نظریہ بدل دیا، ’’لوگوں نے اپنے ملک میں ایڈونچر لانے کی کوشش نہیں کی بلکہ وہ خود سفر کرنے کے متحمل ہو سکتے تھے۔‘‘

بیلجیم نے اپنے نوآبادیاتی جرائم پر آج تک معافی نہیں مانگی ہے۔ سٹیلا نیانچاما کہتی ہیں، ’’لوگ اس گفتگو میں شامل نہیں ہونا چاہتے کیونکہ اس سے پنڈورا باکس کھل جائے گا۔‘‘

تحریر: فرینک گال

جرمن زبان سے ترجمہ: امتیاز احمد / ع ت

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں