1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرانسیسی پولیس پر مہاجرین کو ہراساں کرنے کے الزامات

9 اکتوبر 2021

انسانی حقوق کی تنظیم نے ایک مطالعاتی رپورٹ میں شمالی فرانس میں پولیس پر پناہ گزینوں کو منظم طریقے سے ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پولیس نے پناہ گزینوں کے کیمپوں کو تباہ کرکے مکینوں کو بے گھر کر دیا۔

Migranten in Calais beim gemeinsamen Mittagessen
تصویر: DW/D.Pundy

ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے کروائے گئے اس مطالعے کے مصنفین میں سے ایک میشائل بوشینیک کے مطابق فرانس میں پناہ گزینوں کو مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جا رہا ہے۔ انہیں  بڑے پیمانے پر کیمپوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے، انہیں مہاجر کیمپ خالی کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور اس عمل میں سکیورٹی فورسز یہ کہہ کر کیمپ خالی کروا رہی ہیں کہ یہ پناہ گزین یہاں غیر قانونی طور پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔ میشائل بوشینیک کے بقول،''پناہ گزینوں کے خیموں کو خالی کروانے کے لیے انتہائی سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ خیموں میں پڑاؤ کے لیے استعمال کیے جانے والے ترپال یا سلیپنگ بیگ وغیرہ کو تباہ یا ضبط کر لیا جاتا ہے اور پناہ گزینوں کو اس کا کوئی متبادل بھی فراہم نہیں کیا جاتا۔‘‘

بتایا گیا ہے کہ پناہ گزینوں کو آخر کار سڑک پر پہنچا دیا جاتا ہے جہاں وہ بے سرو سامان اور خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں اور ان کی اگلی منزل پھر کوئی مہاجر کیمپ ہی بنتی ہے۔ فرانس میں ہنگامی کیمپس بھی بُری طرح بھرے ہوئے ہیں جبکہ یہاں صرف ان لوگوں کو پناہ ملتی ہے جو بہت ہی مجبور ہیں۔شمالی مقدونیہ میں درجنوں افغان اور پاکستانی پکڑے گئے

فرانس کے علاقے کلے میں پناہ گزینوں کے خیمےتصویر: DW/L. Louis

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق پناہ گزین کیمپوں سے مہاجرین کا انخلا معمول کی بات ہے اور یہ بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے۔ پولیس اہلکار اطلاع دیے بغیر یا غیر اعلانیہ طور پر کیمپوں پر چھاپہ مارتے ہیں اور مہاجرین کو کیمپ خالی کرنے کے احکامات جاری کر دیتے ہیں۔ زیادہ تر مہاجرین کیمپ خالی کر کے ایک یا دو میٹر کے فاصلے پر، ایک سڑک سے اُٹھ کر دوسری سڑک یا پارکنگ ایریا میں جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس دوران پولیس کیمپوں کی تلاشی لیتی اور تمام چیزیں ضبط کر لیتی ہے۔

پولیس کی بھیانک موجودگی

فرانس کے وزیر داخلہ جیرال دارمانی نے جولائی 2021 ء میں پناہ گزینوں کے خلاف کارروائیوں کے لیے پولیس کی تعیناتی کو اجاگر کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے، ''ایک سخت پولیس آپریشن کا مقصد فرانسیسی شہر کلے میں پناہ گزینوں کو چند سال پہلے کے تجربات یاد دلانا ہے۔ وہ ایک مضبوط پولیس آپریشن اور اس کی نفری کی تعیناتی تھا جو چوبیس تا اڑتالیس گھنٹوں کے وقفے سے مسلسل جاری رہا۔یورپ میں آنے والے تارکین وطن

جان جونکھوں میں ڈال کر یورو ٹنل کے ٹریک تک پہنچنے کی کوششتصویر: picture-alliance/PA Wire/Y. Mok

ہیومن رائٹس واچ نے فرانسیسی سکیورٹی فورسز کے نقطہ نظر کو حکمت عملی کی ایک واضح تبدیلی قرار دیا ہے۔ ماضی میں پناہ گزینوں کے خلاف آنسو گیس کا استعمال زیادہ کیا جاتا تھا، اب انہیں کیمپوں سے باہر نکال کر، چلا کر ، بے دخل کر کے تھکا دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایچ آر ڈبلیو کی طرف سے کروائے گئے اس مطالعے کی رپورٹ کے مصنف میشائل بوشینیک کے بقول، ''یہ امر ناقابل فہم ہے کہ انسان اتنی ذلت و حقارت کیسے برداشت کر سکتا ہے۔‘‘

اعداد و شمار

ہیومن رائٹس واچ نے اس صورتحال کو خالصتاً ہراسانی قرار دیا ہے۔ کیمپوں  کو مہاجرین یا پناہ گزینوں سے خالی کروانے کے عمل میں 15 منٹ سے زیادہ کا وقت درکار نہیں ہوتا تاہم اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کا کوئی اور فائدہ نہیں سوائے اس کے کہ پناہ گزینوں کی زندگیوں کو مشکل سے مشکل تر بنایا جائے۔

کشتیوں کے ذریعے انگلش چینل عبور کرنے کی کوششتصویر: picture-alliance/dpa/AP/Marine Nationale

2020 ء  میں اس تنظیم کی طرف سے 950 مہاجرین کے انخلا کے کیسز سامنے آئے تھے۔ 2016 ء تک فرانس میں کلے شہر مہاجرین کے بحران کی علامت بنا رہا۔ ایک نام نہاد جنگل میں عارضی خیموں کا شہر،  جہاں دس ہزار تک انسان پناہ لیے ہوئے تھے۔ پناہ کے متلاشی بہت سے افراد کے لیے کلے برطانیہ کے راستے میں آنے والا ایک درمیانی مقام تھا اور پانچ برس بعد آج بھی اس کی یہی حیثیت ہے۔ فرانسیسی کوسٹ گارڈز کے مطابق  رواں برس کے شروع کے آٹھ مہینوں کے دوران 15 ہزار چار سو مہاجرین نے کشتیوں کے ذریعے انگلش چینل عبور کرنے کی کوشش کی۔ یہ تعداد گزشتہ پورے برس کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ ہے۔

 

زانڈر ماکس/ ک / ع آ                                                                                            

 

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں