کوئی اونچی اور تیز آواز شور کب بنتی ہے اور عام انسان بیمار ہوئے بغیر زیادہ سے زیادہ کتنا شور برداشت کر سکتے ہیں؟ عالمی ادارہ صحت نے اب پہلی بار ایسی حدیں مقرر کر دی ہیں، جن سے زیادہ شور انسانی صحت کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔
اشتہار
کسی بڑے اسکول، کھیل کے میدان، بہت مصروف شاہراہ، ریلوے اسٹیشن یا پھر ہوائی اڈے کے قریب رہنے والے جانتے ہیں کہ شور کتنا بڑا اور تکلیف دہ مسئلہ بن جاتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت یا ڈبلیو ایچ او کے مطابق کسی مصروف شاہراہ پر دن کے وقت گاڑیوں کی آمد و رفت کی وجہ سے اوسط شور 54 ڈیسیبل تک ہونا چاہیے اور ریل گاڑیوں کی آمد و رفت کی وجہ سے ہونے والا شور تو اوسطاﹰ 54 ڈیسیبل سے زیادہ بالکل نہیں ہونا چاہیے۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق 54 ڈیسیبل شور اوسطاﹰ کتنا ہوتا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب کوئی انسان آہستہ آواز میں کسی دوسرے انسان سے کوئی بات کہتا یا سرگوشی کرتا ہے، تو اس کی آواز کی شدت اوسطاﹰ 30 ڈیسیبل ہوتی ہے۔ اگر ہلکی آواز میں ریڈیو سنا جائے، تو اس سے نکلنے والی آواز کی شدت 50 ڈیسیبل ہوتی ہے۔ اس کے برعکس بجلی کی کسی آری کے چلنے سے نکلنے والی آواز کا شور 100 ڈیسیبل ہوتا ہے۔
شور صحت کے لیے ایک حقیقی خطرہ
عالمی ادارہ صحت نے اس حوالے سے شور کی جن حدودں کا تعین کیا ہے، وہ عام شہریوں کو شور کی وجہ سے پیدا ہونے والی آلودگی اور صحت کے خطرات سے بچانے کی ایک کوشش ہے۔ ان سفارشات کے ساتھ اس عالمی ادارے کے رکن ممالک کی حکومتوں کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ ایسے اقدامات کریں، جن کے بعد عام شہری علاقوں میں شور کو کم سے کم کیا جا سکے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی یورپ کے لیے علاقائی ڈائریکٹر سوزانا یاکب کے مطابق، ’’بہت زیادہ شور صرف غصے اور پریشانی کی وجہ ہی نہیں بنتا بلکہ یہ انسانی صحت کے لیے بھی ایک حقیقی خطرہ ہے، جو مثال کے طور پر دل اور دوران خون کی کئی بیماریوں کی وجہ بھی بنتا ہے۔‘‘
توانائی کی ماحول دوست تنصیبات بھی پرشور
شور مختلف ممالک میں صرف شہری آبادیوں کو ہی پریشان نہیں کرتا بلکہ یورپ میں تو دیہی اور نیم دیہی علاقوں میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے والی تنصیبات بھی بہت زیادہ شور کی وجہ بنتی ہیں۔ ان تنصیبات کے لیے عالمی ادارہ صحت نے اب اپنی طرف سے اوسطاﹰ 45 ڈیسیبل کی حد مقرر کی ہے۔
جرمنی میں تحفظ ماحول کے وفاقی دفتر کے مطابق جرمن رہائشی علاقوں میں رات کے وقت ایسی تنصیبات سے پیدا ہونے والے شور کی پہلے ہی سے طے کردہ زیادہ سے زیادہ حد 50 ڈیسیبل ہے۔
صحت دشمن تفریح
عالمی ادارہ صحت کے مطابق عام انسانوں کی صحت کے لیے خطرہ صرف روزمرہ زندگی کا شور ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ شور بھی اتنا ہی خطرناک ہے، جن کی وجہ عام لوگ فارغ وقت کی اپنی مصروفیات کے ساتھ بنتے ہیں۔ اس طرح کے خطرات میں شراب خانوں، نائٹ کلبوں اور کھیلوں کے مختلف مقابلوں کی وجہ سے پیدا ہونے والا شور بھی شامل ہے اور وہ صوتی آلودگی بھی جو بہت اونچی آواز میں موسیقی سننے سے پیدا ہوتی ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی سفارشات کے مطابق عام لوگوں کی صحت کو شور کی وجہ سے درپیش خطرات کے ازالے کے لیے لازمی ہو گا کہ ایسے تمام ذرائع سے پیدا ہونے والے شور کو سالانہ اوسط بنیادوں پر 70 ڈیسیبل سے بھی کم تک محدود کر دیا جائے۔
م م / ع س / اے ایف پی، ڈبلیو ایچ او
دنیا کے دس ایسے شہر، جہاں سانس لینا خطرے سے خالی نہیں
اسٹارٹ اپ کمپنی ’ایئر ویژول‘ دنیا بھر کے کئی شہروں میں ہوا کے معیار کے بارے میں اپ ڈیٹ فراہم کرتی ہے۔ ’ایئر کوالٹی انڈکس‘ کے مطابق دنیا کے اہم لیکن خطرناک ترین ہوا والے شہروں کی درجہ بندی اس پکچر گیلری میں دیکھیے۔
تصویر: pictur- alliance/AP Photo/K. M. Chaudary
1۔ لاہور
ایئر ویژول نے حالیہ دنوں میں لاہور کا ’ایئر کوالٹی انڈکس‘ پانچ سو سے زائد تک ریکارڈ کیا۔ PM2.5 معیار میں فضا میں موجود ایسے چھوٹے ذرات کا جائزہ لیا جاتا ہے جو سانس کے ذریعے پھیپھڑوں اور خون تک میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے 2012 کے ڈیٹا کے مطابق لاہور میں PM2.5 کی سالانہ اوسط 68 رہی تھی۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/R. S. Hussain
2۔ نئی دہلی
ایئر کوالٹی انڈکس میں لاہور کے بعد آلودہ ترین ہوا بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ریکارڈ کی گئی جہاں PM2.5 ساڑھے تین سو تک ریکارڈ کیا گیا۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے 2012 کے ڈیٹا کے مطابق نئی دہلی میں PM2.5 کی سالانہ اوسط 122 رہی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Faget
3۔ اولان باتور
منگولیا کا دارالحکومت اولان باتور ایئر ویژول کی اس فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے جہاں PM2.5 ایک سو ساٹھ سے زیادہ رہا۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈیٹا کے مطابق اولان باتور میں PM2.5 کی سالانہ اوسط 75 رہی تھی۔
تصویر: DW/Robert Richter
4۔ کلکتہ
بھارتی شہر کلکتہ بھی آلودہ ترین ہوا والے شہروں کی اس فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے جہاں PM2.5 حالیہ دنوں میں ڈیڑھ سو سے زیادہ ریکارڈ کی گئی۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے 2014 کے ڈیٹا کے مطابق کلکتہ میں PM2.5 کی سالانہ اوسط 61 رہی تھی۔
تصویر: DW/Prabhakar
5۔ تل ابیب
اسرائیلی شہر تل ابیب میں بھی PM2.5 کی حد ڈیڑھ سو کے قریب رہی۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے 2014 میں جمع کیے گئے ڈیٹا کے مطابق تل ابیب میں PM2.5 کی سالانہ اوسط بیس رہی تھی جب کہ قابل قبول حد پچاس سمجھی جاتی ہے۔
تصویر: picture alliance/Robert Harding World Imagery/G. Hellier
6۔ پورٹ ہارکورٹ
ایک ملین سے زائد آبادی والا نائجیرین شہر پورٹ ہارکورٹ اس فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے جہاں ایئر کوالٹی انڈکس ایک سو چالیس ریکارڈ کیا گیا۔
تصویر: DW
7۔ ممبئی
بھارتی شہر ممبئی آلودہ ترین ہوا کے حامل شہروں کی اس فہرست میں شامل تیسرا بھارتی شہر ہے جہاں ایئر کوالٹی انڈیکس ایک سو تینتیس رہا۔
تصویر: picture alliance/AFP Creative/P. Paranjpe
8۔ شنگھائی
چینی شہر شنگھائی میں بھی بڑے لیکن آلودہ ہوا والے شہروں کی اس فہرست میں شامل ہے جہاں PM2.5 ایک سو انتیس ریکارڈ کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Imaginechina/Guo Hui
9۔ شینگدو
چین کے شینگدو نامی شہر میں بسنے والے ایک ملین سے زائد انسان آلودہ ہوا میں سانس لینے پر مجبور ہیں۔ ایئر ویژول کے مطابق اس شہر میں چھوٹے خطرناک ذرات ماپنے کا معیار ایک سو چودہ رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Xiaofei
10۔ ہنوئی
ویت نام کے دارالحکومت ہنوئی میں بھی ایئر کوالٹی انڈیکس کا درجہ ایک سو بارہ رہا جو قابل قبول معیار سے دوگنا سے بھی زائد ہے۔