انسان کتوں کی معصومانہ نظروں سے متاثر کیوں ہو جاتے ہیں ؟
19 جون 2019
ایک تازہ تحقیق کے مطابق اس بات کا سراغ مل گیا ہے کہ اکثر انسان کتوں کے دیکھنے کے انداز سے کیوں متاثر ہو جاتے ہیں۔ اس تحقیق کے مطابق پالتو کتے اپنی بھنوؤں کو بھیڑیوں کی نسبت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔
اشتہار
نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کے مطابق پالتو کتوں کی جانب سے بھنوؤں کو زیادہ استعمال کرنے سے کتے انسانوں کے بچوں کی مانند دکھتے ہیں اور اسی وجہ سے اکثر انسانوں کا دل کتوں کو دیکھ کر نرم ہو جاتا ہے اور ان میں اپنے پالتو جانور کو پیار کرنے اور اس کا خیال رکھنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
اس تحقیق میں ریسرچرز نے کتوں کا موازنہ بھیڑیوں سے کیا۔ اس موازنے سے یہ پتا چلا کہ کتے اپنی بھنوؤں کو اس طرح سے اوپر نیچے کرتے ہیں جس سے ان کے چہرے کے تاثرات انسانی بچے جیسے ہو جاتے ہیں جبکہ بھیڑیے اپنی بھنوؤں کو ہلا ہی نہیں پاتے۔ این بروز اس رپورٹ کی شریک مصنفہ ہیں۔ بروز کا کہنا ہے،''عام طور پر ایک دوسرے سے ملتی جلتی مخلوقات میں بہت زیادہ فرق نظر نہیں آتا۔‘‘ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ انسان بات چیت کرتے ہوئے اکثر جسم کے اوپر والے حصے پر توجہ دیتے ہیں اور کتے اسی طرز عمل کو دیکھتے ہوئے کتوں نے اپنی بھنوؤں کے پٹھوں کا استعمال کرنا شروع کیا ہو گا۔
اس تحقیق کے نتائج 2015ء میں کی جانے والی ایک ریسرچ سے ملتے جلتے ہیں جس میں بتایا گیا تھا کہ انسان جب اپنے پالتو جانوروں کے ساتھ ہوتے ہیں تو ان کے دماغ میں محبت کے ویسے ہی جذبات ہوتے ہیں جیسے ماں اپنے بچے کے لیے رکھتی ہے۔ اس حالیہ ریسرچ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ کتے انسانوں کو اپنی آنکھ کا سفید حصہ دکھانے کی کوشش کرتے ہوں کیوں کہ کتوں کی آنکھیں انسانوں کی آنکھوں سے ملتی ہیں اور انسان اس لیے بھی کتوں کو اپنے قریب تر سمجھ سکتے ہیں۔
این بروز اور سائنسی کمیونٹی کے دیگر اراکین کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے نتائج حتمی نہیں ہیں اور اس شعبے میں مزید تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔
ب ج/ ع ا
کتوں کی دس نسلیں، جن کی جڑیں جرمنی میں ہیں
کیا آپ کے ذہن میں چند ایسے کتوں کے نام ہیں، جن کا تعلق بنیادی طور پر جرمن سرزمین سے ہے؟ کچھ اپنے نام سے جرمن نہیں لگتے لیکن ہیں خالص جرمن۔ ایک مدت ہوئی یہ کتے پوری دنیا میں اپنے جرمن ہونے کی وجہ سے مشہور ہو چکے ہیں۔
تصویر: Imago/Danita Delimont
گریٹ ڈین
نام سے لگتا ہے کہ یہ ڈینش (ڈنمارک کا) ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ بڑے قد کے یہ کتے جرمن ہی ہیں۔ کتوں کی یہ نسل سترہویں صدی میں ’جرمن رائلز‘ اور اُن کے شکار کرنے والے ساتھیوں کے جنسی ملاپ کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ گریٹ ڈینز دنیا میں سب سے زیادہ قد والے کتوں کی نسل ہے۔ جرمن انہیں ’ڈوئچے ڈوگے‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ 2010ء میں اُتاری گئی یہ تصویر دنیا کے سب سے بڑے کتے کی ہے۔
تصویر: picture alliance / dpa
امیریکن اسکیمو ڈاگ
یہ کتا پہلی عالمی جنگ کے بعد اچانک ’امریکی‘ بن گیا تھا، جب امریکا نے جرمنی کے ساتھ اس کے تعلق سے متعلق تمام تر تفصیلات منظر سے ہٹا دی تھیں۔ اس کتے کو امریکا میں سرکس میں مزاحیہ کردار ادا کرنے کے باعث شہرت ملی۔ امریکی کینل کلب اس کتے کو ایک منفرد نسل قرار دیتا ہے لیکن بیلجیئم کا ادارہ FCI اس سے متفق نہیں اور کہتا ہے کہ یہ کتا ہمیشہ سے ’جرمن اشپٹس‘ تھا اور رہے گا۔
تصویر: Imago/Danita Delimont
باکسر
اٹھارویں صدی میں جرمن شہر میونخ کے تین مردوں نے ایک بُل ڈاگ کا ایک نامعلوم نسل کے کتے سے جنسی ملاپ کروایا اور اس تجربے کو چند اور نسلوں تک جاری رکھا۔ نتیجہ ایک ایسے کتے کی شکل میں سامنے آیا، جس کا چہرہ کلبی دُنیا میں فوری طور پر شناخت ہو جانے والے چہروں میں سے ایک ہے۔ اس کے بارے میں تفصیلات اب بھی وہی ہیں، جو 1902ء میں لکھی گئی تھیں۔ اس کے باوجود اس کتے کی اصل جڑیں ابھی تک پردہٴ اَسرار میں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ڈاخس ہُنڈ
’ڈاخس‘ یعنی بجّو، چھوٹے پاؤں والے ان کتوں کی افزائش شکاری کتوں کے طور پر کی گئی۔ انگریزی میں آج بھی یہ ’وِینر ڈاگز‘ ہیں اور یہ شوق سے بِل ہی نہیں کھودتے بلکہ کاٹتے بھی ہیں۔ 2008ء کے ایک جائزے کے مطابق بیس فیصد پالتو ڈاخس ہُنڈ کتوں نے اجنبیوں کو کاٹ لیا۔ ایسا ایک کتا جرمن شہنشاہ ولہیلم ثانی کے پاس بھی تھا، جو نواب فرانز فیرڈینانڈ سے ملنے گئے تو اُس کتے نے نواب کی ایک سنہری چکور کو کاٹ کر مار ڈالا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Nearmy
چھوٹا اور بڑا ’مُنسٹر لینڈر‘
1902ء میں کتے کی اس نسل کو، جسے پہلے نظر انداز کیا جا رہا تھا، ایک جرمن باشندے ایڈمُنڈ لوئنز کی کوششوں سے قبول عام کی سند ملی، جسے خوبصورت جسم والے ان کتوں میں شکار کی بھی زبردست صلاحیت نظر آئی تھی۔ چھوٹے مُنسٹر لینڈر (تصویر) کتوں کی افزائش کے سخت اور اعلیٰ معیارات کے باعث اس نسل کے کتے بہت کم دستیاب ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ چھوٹے مُنسٹر لینڈر کتوں کا بڑے مُنسٹر لینڈر کتوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
تصویر: Eva-Maria Krämer
وائیمارانر
سنہری جِلد، تیکھی آنکھیں اور انسان کے ساتھ گھُل مِل جانے والے، وائیمارانر نسل کے کتوں کی ہر ادا دلفریب سمجھی جاتی ہے۔ سب سے پہلے شہر وائیمار میں اس کتے کی افزائش کی گئی۔ اس کی منفرد بات یہ کہ اس شکاری کتے کو پالتو کتے کے طور پر بھی رکھا جا سکتا ہے۔ جرمنوں کو یہ کتے اتنے پسند تھے کہ ملک سے باہر بھیجتے وقت انہیں بانجھ کر دیا جاتا تھا تاکہ ان کی نسل آگے نہ بڑھے، گو اس نسل کو بڑھنے سے روکا نہ جا سکا۔
یہ اٹھارویں صدی کے اواخر کی بات ہے۔ جرمن شہر اپولڈا میں عدالت میں کلرک کے طور پر کام کرنے والے فریڈرش لوئس ڈوبرمان کو ٹیکس جمع کرنے والے افسر کے طور پر رات کو ڈیوٹی کی انجام دہی کے دوران حفاظت کے لیے ایک کتے کی ضرورت پڑی۔ چونکہ وہ مقامی مویشی خانے کا بھی انچارج تھا، اُس نے وائیمارانر، پِنشر اور پوائنٹر کتوں کی کراس بریڈنگ سے وہ پہریدار کتا پیدا کیا، جسے ہم آج ڈوبرمان پِنشر کے نام سے پکارتے ہیں۔
تصویر: Imago/alimdi
روٹ وائلر
کتوں کی یہ نسل قرونِ وُسطیٰ کے تاجروں کی وفادار ساتھی ہوا کرتی تھی۔ یہ کتے مویشیوں اور گوشت والی بیل گاڑیوں کی حفاظت کرتے تھے اور چوروں و جنگلی جانوروں سے بچاتے تھے۔ ان کتوں کی افزائش جرمنی کے ایک سابقہ تجارتی مرکز روٹ وائل میں ایسے کتوں کے طور پر کی گئی، جو ہر قیمت پر سامان کی حفاظت کرنے تھے۔ یہ دنیا میں کسی بھی دوسرے کتے کے مقابلے میں زیادہ طاقت (کاٹنے کا دباؤ 149 کلوگرام) کے ساتھ کاٹ سکتے ہیں۔
تصویر: Eva-Maria Krämer
جرمن شیپرڈ
1899ء میں ’جرمن شیپرڈز کے کلب کی بریڈ رجسٹری‘ میں ’ہورانڈ فان گرافاتھ‘ نام کے ایک کتے کا نام درج کیا گیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد انگریزوں نے اس کا نام ’السیشن‘ رکھ دیا۔ امریکیوں نے اس کے نام میں سے ’جرمن‘ کا لفظ سرے سے ہٹا دیا۔ آسٹریلیا میں عشروں تک ان پر پابندی رہی، اس خوف سے کہ کہیں اس کا جنگلی کتوں کی آسٹریلیوی نسل ’ڈِنگو‘ سے نہ ملاپ ہو جائے۔ نازی حکمران ہٹلر کے پاس ایسے چھ کتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/Arco Images/P. Wegner
شناؤتسر
شناؤتسر اور پِنشر آپس میں اتنا قریبی تعلق رکھتے ہیں کہ کتوں کے حوالے سے بین الاقوامی نگران ادارے ایف سی آئی کی جانب سے انہیں ایک ہی گروپ گردانا جاتا ہے۔ جنوبی جرمنی میں شناؤتسر کتوں کو بنیادی طور پر مویشیوں کے باڑوں میں رکھا جاتا تھا اور یہ چوہوں کو پکڑا کرتے تھے۔ انہیں چوہوں کے نوکیلے دانتوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ان کے کان اور دُمیں کتر دی جاتی تھیں۔