1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
دہشت گردیترکی

انقرہ کے قریب ترک ایرو اسپیس فرم پر 'دہشت گردانہ' حملہ

24 اکتوبر 2024

ترک ایرو اسپیس انڈسٹریز کے ہیڈ کوارٹر کے احاطے میں دھماکے اور فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں۔ ترک وزیر داخلہ نے اسے "دہشت گردانہ حملہ" قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں ہلاکتیں ہوئیں اور لوگ زخمی ہوئے ہیں۔

دنیا بھر میں متعدد رہنماؤں نے اس حملے کی مذمت کی
دنیا بھر میں متعدد رہنماؤں نے اس حملے کی مذمت کیتصویر: AP/picture alliance

بدھ کو انقرہ کے قریب ترکش ایرو اسپیس انڈسٹریز (ٹوساس) کے صدر دفتر پر حملے میں پانچ افراد ہلاک اور 22 زخمی ہو ئے ہیں۔

روس کے شہر کازان میں برکس سربراہی اجلاس میں شریک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا، "میں اس گھناؤنے دہشت گردی کے حملے کی مذمت کرتا ہوں۔"

وزیر داخلہ علی یرلیکایا نے حملے کو "دہشت گردانہ حملہ" قرار دیتے ہوئے کہا کہ دو حملہ آور مارے گئے۔ انہوں نے سوشل میڈیا ایکس پر لکھا کہ "ترکش ایئروسپیس انڈسٹریز پر دہشت گردانہ حملہ کیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے اس حملے میں لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔"

اس واقعے کے بعد، ترکی کی وزارت دفاع نے جمعرات کی صبح شام اور عراق میں کرد جنگجوؤں کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کا اعلان کیا۔

یہ حملہ اس وقت ہوا جب صدر اردوآن برکس سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے روس کے شہر کازان میں تھےتصویر: IHA/AP/picture alliance

ہم اس واقعے کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

حکام کے مطابق حملہ آوروں نے تنصیب پر دھماکہ خیز مواد پھینکا اور فائرنگ کی۔

جائے وقوعہ سے ملنے والی فوٹیج میں دارالحکومت انقرہ سے تقریباً 40 کلومیٹر شمال میں واقع ایک چھوٹے سے قصبے کہرامان کازان کے مقام پر سیاہ دھویں کے بڑے بادل اور آسمان کی طرف اٹھتی آگ کو دیکھا جا سکتا ہے۔

ترک ٹیلی ویژن نیٹ ورک این ٹی وی نے اطلاع دی ہے کہ حملہ آوروں کا ایک گروپ جو دھماکہ خیز مادوں سے لیس تھا، ٹیکسی کے اندر کمپلیکس کے داخلی دروازے پر پہنچا۔

انہوں نے کمپلیکس میں داخل ہونے سے پہلے ٹیکسی کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا۔

یرلیکایا نے کہا، "ٹوساس کمپلکس پر دہشت گردانہ حملے میں دو دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا۔"

ٹوساس ترکی کی اہم ترین دفاعی اور ایوی ایشن کی کمپنی ہے۔ یہ کمپنی دوسری مصنوعات کے علاوہ ملک کے اولین لڑاکا طیارے 'کان‘ بناتی ہے۔

پی کے کے کے حامیوں کا اسٹاک ہولم میں جلوس، جسے ترکی، امریکہ اور یورپی یونین نے دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہےتصویر: Atila Altuntas/AA/picture alliance

انگلی کردش ورکرز پارٹی کی طرف

فوری طور پر کسی نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

تاہم یرلیکایا نے کہا کہ یہ حملہ ممکنہ طور پر کالعدم کردش ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے ارکان نے کیا تھا۔

انہوں نے بدھ کی رات کہا، "شناخت کا عمل اور انگلیوں کے نشانات کی تلاش جاری ہے اور ہم بتائیں گے کہ اس حملے کے پیچھے کس دہشت گرد تنظیم کا ہاتھ تھا... جس طرح سے یہ کارروائی کی گئی، اس میں ممکنہ طور پر پی کے کے کا ہاتھ نظر آتا ہے۔"

وزیر دفاع یاسر گلر نے بھی اس حملے کے لیے پی کے کے کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ انہوں نے کہا "ہم ان شرپسندوں کو ہر بار وہ سزا دیتے ہیں جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں۔ لیکن وہ کبھی ہوش میں نہیں آتے۔" گلر نے مزید کہا، "ہم آخری دہشت گرد کے خاتمے تک ان کا پیچھا کریں گے۔"

پی کے کے پر حملے

جمعرات کی صبح سویرے، ترکی کی وزارت دفاع نے شمالی شام اور عراق میں پی کے کے سے منسلک اہداف پر فضائی حملے کیے۔

وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا، "عراق اور شام کے شمال میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف ایک فضائی آپریشن کیا گیا... اور دہشت گردوں کے کل 32 اہداف کو کامیابی سے تباہ کر دیا گیا۔"

پی کے کے ایک عسکریت پسند کرد تنظیم ہے، جسے ترکی، امریکہ اور یورپی یونین نے دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے۔ اس نے ترک حکومت کے خلاف دہائیوں سے بغاوت کر رکھی ہے۔

انقرہ میں یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب استنبول میں اہم دفاع اور ایوی ایشن انڈسٹری کی تجارتی نمائش جاری ہے۔

دہشت گردانہ حملے کی مذمت

بدھ کے روز بعد میں دنیا بھر میں متعدد رہنماؤں نے اس حملے کی مذمت کی۔

روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے برکس سربراہی اجلاس کے موقع پر ایردوآن کو تعزیت پیش کی۔

پوٹن نے کہا کہ "ہمیں کازان میں آپ کا خیرمقدم کرتے ہوئے بہت خوشی ہوئی ہے، لیکن اس سے پہلے کہ ہم اپنا کام شروع کریں، میں دہشت گردی کے حملے کے سلسلے میں اپنی تعزیت کا اظہار کرنا چاہوں گا"۔

جرمنی نے بھی اس کی مذمت کی۔ اس نے کہا کہ یہ "خوفناک دہشت گردانہ حملہ" ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان نے اسے "گہرا صدمہ پہنچانے والا" قرار دیا۔

نیٹو کے سربراہ مارک روٹے نے رکن ریاست ترکی کو اتحاد کی حمایت کی پیشکش کی۔ ایردوآن کے ساتھ ایک فون کال میں، روٹے نے زور دیا کہ "نیٹو ترکی کے ساتھ کھڑا ہے۔"

امریکہ نے بھی حملے کی مذمت کی ہے۔

قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے صحافیوں کو بتایا کہ "اگرچہ ہمیں ابھی تک اس کا مقصد یا اس کے پیچھے کون ہے، اس کا پتہ نہیں ہے، ہم تشدد کے اس عمل کی شدید مذمت کرتے ہیں۔"

پاکستان کے صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی اس دہشت گردانہ حملے کی مذمت کی۔

ج ا ⁄ ص ز (روئٹرز، اے پی، ڈی پی اے، اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں