ایک روایتی لکڑی کے تابوت کو مکمل طور پر گلنے میں کئی سال لگتے ہیں۔ لیکن ایک نئے قسم کا انوکھا فنگس تابوت نہ صرف ماحول دوست ہے بلکہ اس میں لاش جلدی گل سڑ جاتی ہے۔
اشتہار
فنگس تابوت نیدرلینڈز سے تعلق رکھنے والے ایک صنعتی ڈیزائنر بوب ہینڈرکس کی ایجاد ہے۔ اس تابوت کو بنانے کے لیے بس لیب کوٹ، دستانے، حفاظتی چشمے، لکڑی کا کافی سارا برادہ اور پھپھوندی درکار ہوتی ہے۔ بوب ہینڈرکس کا کہنا ہےکہ یہ تابوت ان لوگوں کے لیے ایک ایجاد ہے، جو آنے والی نسلوں کی فکر کرتے ہیں،’’جو اپنی موت کے بعد دوبارہ فطرت کے ساتھ مل جانا اور اُس کا حصہ بن جانا چاہتے ہیں اور مٹی کو آلودہ کرنے کی بجائے اسے بطور کھاد مزید زرخیز بنانا چاہتے ہیں۔ میرے خیال میں ڈیوڈ ایٹنبرو اور گریٹا تھنبرگ میرے "فنگس تابوت" کے فین ہوں گے۔"
انسانی کھاد، ایک بے فاسق یا شاندار خیال؟
اس نوجوان صنعتی ڈیزائنر نے فنگس تابوت کو کم و بیش حادثاتی طور پر ایجاد کیا، جب وہ اپنی تعلیم کے دوران ’زندہ تعمیراتی سامان‘ پر تحقیق کر رہے تھے۔ بوب ہینڈرکس کا مزید کہنا ہے کہ فنگس مٹی میں دوبارہ جان پیدا کر دیتی ہے اور تیزی سے بڑھتی ہے، اس کے لیے بجلی، حرارت یا روشنی کی ضرورت نہیں ہے، ’’اس کے برعکس یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر لیتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جتنے زیادہ لوگوں کی اس طرح تدفین ہو گی اتنا ہی یہ زمین کے لیے بہتر ثابت ہو گا۔ اور یہ ہمارے تدفین کے اب تک کے طریقوں سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔"
اشتہار
سو فیصد قدرتی
صرف سات دنوں میں فنگس نیٹ ورک پہلے سے تیار شدہ سانچے میں اس طرح کے تابوت میں نشو ونما پا جاتا ہے۔ اس کی بیرونی سطح مخملی محسوس ہوتی ہے۔ یہ ایک فوم باکس کی طرح لگتا ہے اور وزن بھی کم ہے۔یہ سو فیصد قدرتی پراڈکٹ ہے۔
دنیا کے لیے ایک مثال
نیدرلینڈز میں فنگس تابوت میں 100 سے زائد افراد کی تدفین ہو چکی ہے۔ اس تابوت میں پہلی تدفین گزشتہ سال کی گئی تھی۔ ایک فنگس تابوت کی قیمت پندرہ سو یورو ہے، جو عام ایک درمیانے تابوت کی قیمت بنتی ہے۔
جان فان کاسٹروپ کے بقول، "مجھے نہیں لگتا کہ لوگ مالی وجوہات کی بناء پر ایسا فنگس تابوت خریدنے کا فیصلہ کرتے ہیں، بلکہ وہ واقعی باقی دنیا کے لیے ایک مثال بننا چاہتے ہیں۔ سب کو اس سیارے کی بہتری کے لیے کوئی نہ کوئی مثال پیچھے چھوڑنی چاہیے۔"
سقارہ میں سو قدیمی تابوت اور تاریخی نوادرات دریافت
02:04
نئے پودوں کے لیے غذائی اجزاء
دنیا بھر میں روزانہ تقریبا ایک لاکھ ساٹھ ہزار افراد انتقال کرتے ہیں اور اپنے نشانات پیچھے چھوڑ جاتے ہیں، نہ صرف اپنے پیاروں کے دلوں میں بلکہ کچھ زہریلے مادے بھی پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ ایک روایتی تابوت میں کسی لاش کو گلنے سڑنے کے لیے دس برس کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ فنگس تابوت دو سے تین برسوں میں لاش کے مکمل طور پر گلنے سڑنے کا انتظام کر کے اسے نئے پودوں کے لیے غذائی اجزا فراہم کرنے کا ذریعہ بھی بنا دیتا ہے۔
فی الحال پائیدار یا ماحول دوست تدفین کی ثقافت کو معاشرے کی اکثریت کی تائید حاصل نہیں ہے لیکن بوب اور تدفین کے انتظام کرنے والوں کو یقین ہے کہ جلد ہی لوگ زمین کی بہتری کے لیے فنگس تابوت میں دفن ہونے کی وصیت کیا کریں گے۔
گڈرن اینگل (ک،م ⁄ ا،ا)
ماحول دوست تدفین رواج پکڑتی ہوئی
جرمنی میں آخری رسومات کا انتظام کرنے والی کمپنیوں نے تحفظِ ماحول کا خیال رکھتے ہوئے نئے طریقے متعارف کرائے ہیں۔ اب ایسے تابوت تیار کیے جا رہے ہیں، جو ماحول کو نقصان پہنچائے بغیر فوری طور پر قدرتی نظام کا حصہ بن جاتے ہیں۔
تصویر: ARKA Ecopod
بید سے بنا تابوت
جسے روایتی تابوت کی بناوٹ پسند نہ ہو وہ اپنی زندگی میں ہی اپنی لیے بید سے بُنے تابوت کا انتخاب کر سکتا ہے۔ اس تابوت کی بُنائی کا کھلنا آسان ہوتا ہے اور اس کے اندر لگے کپڑے کو الگ کرنا بھی مشکل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بید کا درخت بہت تیزی سے بھی بڑھتا ہے۔ اس انداز میں تدفین کے خواہش مند افراد کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ مرنے کے بعد بھی ماحول دوست ہی رہے۔
تصویر: Passages International, Inc.
کفن
ہزاروں سالوں سے مردوں کو کپڑے میں لپیٹ کر دفنانے کا سلسلہ چلا آ رہا ہے۔ یورپ میں ابھی تک لوگ مردوں کو دفنانے کا یہ طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تدفین کا یہ انداز کم خرچ ہے، وہ غلطی پر ہیں کیونکہ کفن کے کپڑے کی قیمت ایک ہزار ڈالر تک بھی ہوتی ہے۔
تصویر: Gordon Tulley, Respect Funeral Services
اخباری کاغذ سے تیار کردہ تابوت
یہ بات بالکل بھی دلفریب نہیں لگتی کہ کوئی شخص اپنا آخری سفر اخبار کے دوبارہ کارآمد بنائے گئے صفحات میں طے کرے۔ اب اخبارات کے صفحات کو بھی خوبصورت تابوتوں کی شکل دی جانے لگی ہے۔ اگر کسی کو یہ ناپسند ہوں تو تابوت سونے کا بھی بنوایا جا سکتا ہے۔ آخر کار مرتا تو انسان صرف ایک ہی بار ہے۔
تصویر: ARKA Ecopod
کم وزن اور ہلکا پھلکا
اخبارات کے صفحات سے بنائے گئے تابوتوں کا وزن نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ دفنانے کے بعد یہ بہت جلد ہی مٹی کا حصہ بن جاتے ہیں، جو قبرستان کے قدرتی ماحول کے لیے بہت ہی سازگار ہوتا ہے۔
تصویر: ARKA Ecopod
اخبار سے بنایا گیا مصری راکھ دان
اخبارات سے تیار کردہ راکھ دان بھی اُسی کمپنی کی اختراع ہیں، جس نے اخباری کاغذ سے بنائے گئے تابوت متعارف کرائے ہیں۔ ڈیزائنر ہَیزل سیلینا کا کہنا ہے کہ قدیم مصر میں تجہیز و تکفین کی رسومات نے اُنہیں بہت متاثر کیا اور اخبارات سے راکھ دان بنانے کا خیال بھی اُن کے ذہن میں اِنہی مصری روایات کی وجہ سے آیا۔
تصویر: ARKA Ecopod
درخت کی طرح کا راکھ دان
مختلف شکلوں کے راکھ دان بنانے والی مختلف کمپنیوں نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ایسے برتن بھی بنائے ہیں، جن میں کھاد اور بیج بھی موجود ہوتے ہیں۔ سِرامک کا بنا اِس برتن کا ڈھکن اُس وقت ٹوٹ جاتا ہے، جب پودہ زمین سے اُبھرنا شروع کرتا ہے۔
تصویر: Spíritree
زیرِ آب راکھ دان
اپنی راکھ کے سمندر برُد کیے جانے کی خواہش رکھنے والے افراد کے لیے کاغذ سے بنا ہوا یہ خصوصی برتن تیار کیا گیا ہے۔ مرنے والے کے لواحقین اِس برتن پر نقش و نگار بھی بنا سکتے ہیں اور اپنے آخری پیغامات بھی اِس میں ڈال سکتے ہیں۔
تصویر: Passages International, Inc.
انسانی درخت
اس تھیلے میں لاش کو بالکل اُسی طرح سے رکھا جاتا ہے، جس طرح بچہ ماہ کے پیٹ میں ہوتا ہے۔ یہ تصور ایک اطالوی ڈیزائنر نے پیش کیا۔ اس میں لاش ایک درخت کی غذا بنتی ہے۔ اطالوی حکومت نے ابھی تک مُردوں کو اس طرح سے ’دفنانے‘ کی اجازت نہیں دی اور اسے ’مستقبل کا ڈیزائن‘ قرار دیا جا رہا ہے۔