انٹارکٹیکا میں گرمی کی پہلی لہر، پودوں اور حیوانات کو خطرہ
31 مارچ 2020
سائنسدانوں نے جنوری میں درجہ حرارت میں اضافے کے بعد براعظم انٹارکٹیکا میں گرمی کی پہلی لہر ریکارڈ کی ہے۔ محققین نے اس پیش رفت سے پودوں اور حیوانات کو پہنچنے والے ممکنہ نقصان پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Ordonez
اشتہار
سائنسدانوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ براعظم انٹارکٹیکا میں گرمی کی لہر ریکارڈ کی ہے اورخبردار کیا ہے کہ اس پیش رفت کے اس الگ تھلگ براعظم کے جانوروں اور پودوں پرگہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ آسٹریلین انٹارکٹک پروگرام کے محققین نے یہ ڈیٹا سن دو ہزارانیس اور بیس کے درمیان انٹارکٹیکا کے مشرق میں واقع کیسی ریسرچ اسٹیشن پر جمع کیا۔ یہ تحقیق گلوبل چینج بائیولوجی جرنل میں منگل کے روز شائع ہوئی ہے۔
سائنسدانوں نے خبردارکیا ہے کہ اس پیش رفت سے عالمی موسمیاتی رجحانات بھی تبدیل ہو سکتے ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ تئیس اور چھبیس جنوری کے درمیان کیسی سرچ سینٹر میں اس براعظم پر حیران کن طور پر سب سے زیادہ اور سب سے کم درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔ ان چند دنوں کے دوران برف سے ڈھکی اس سرزمین پر کم سے کم درجہ حرارت بھی صفر ڈگری سینٹی گریڈ سےاوپر ہی رہا۔
موسمیاتی تبدیلیاں انٹارکٹیکا اور وہاں کے پینگوئنز کے لیے خطرناک
سائنسدانوں کو حال ہی میں یہ پتا چلا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں بر اعظم انٹارکٹیکا اور وہاں موجود پینگوئنز کی آبادی پر گہرے اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ فروری سن 2020 انٹارکٹیکا کی تاریخ میں اب تک کا گرم ترین فروری تھا۔
تصویر: Reuters/U. Marcelino
ایک انٹارکٹک مشن پر
اس سال کے اوائل میں دو یونیورسٹیوں سے وابستہ امریکی سائنسدانوں کی ایک ٹیم ایک مشن پر انٹارکٹیکا روانہ ہوئی۔ وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ مغربی انٹارکٹک میں سن 1970 کے مقابلے میں اب کتنے ’چن سٹریپ‘ پینگوئن بچے ہوئے ہیں۔ اس خطے میں آخری مرتبہ ایسا سروے سن 1970 میں کیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/U. Marcelino
چِن سٹریپ پینگوئنز کی خصوصیات
چِن سٹریپ نسل کے پینگوئنز بحیرہ جنوبی پیسیفک اور بحیرہ انٹارکٹک کے جزائر پر رہتے ہیں۔ انہیں یہ نام اپنے سر کے نچلے حصے پر پتلی کالی پٹی کی وجہ سے دیا جاتا ہے۔ وہ کافی بلند آواز میں چلاتے ہیں۔ ایک مخصوص بو دور سے ہی بتا دیتی ہے کہ آس پاس چن سٹریپ نسل کے پینگوئنز ہیں۔ انہیں عموما انسانوں سے ڈر نہیں لگتا۔
تصویر: Reuters/U. Marcelino
پریشان کن نتائج
سائنسدانوں نے پینگوئنز کی گنتی کے لیے ڈرون سمیت مختلف طریقے استعمال کیے۔ انہیں پتا چلا کہ پینگوئنز کی چند کالونیوں میں تعداد ستر فیصد سے بھی کم ہو چکی تھی۔ بیالوجسٹ اسٹیو فارسٹ کے بقول یہ ڈرامائی کمی ہے۔
تصویر: Reuters/U. Marcelino
کھانے کی قلت
چن سٹریپ نسل کے پینگوئنز عام طور پر چھوٹی مچھلیاں کھاتے ہیں۔ اپنا کھانا تلاش کرنے کے لیے وہ روزانہ پچاس میل یا اسی کلومیٹر تک کا فاصلہ طے کر سکتے ہیں۔ ان کے پر ایک کوٹ کی طرح کام کرتے ہیں جن کی مدد سے وہ برف جیسے ٹھنڈے پانی میں تیر کر یہ فاصلہ طے کرتے ہیں۔ لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ان پینگوئنز کی خوراک کم ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters/U. Marcelino
نسل آگے بڑھانے کا چیلنج
چن سٹریپ نسل کے پینگوئنز اپنے بچوں کی پیدائش کے وقت الگ تھلگ جگہوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ پتھروں کے بیچ ایک گھونسلہ بنا کر دو انڈے دیتے ہیں اور پھر نر اور مادہ دونوں ان انڈوں کا خیال رکھتے ہیں۔ البتہ کھانے کی قلت کی وجہ سے ری پروڈکشن کا عمل بھی متاثر ہو رہا ہے۔
تصویر: Reuters/U. Marcelino
پچاس سالوں میں تعداد نصف
دنیا بھر میں اس وقت قریب آٹھ ملین چن سٹریپ پینگوئنز ہیں۔ لیکن گزشتہ پچاس برسوں میں بحیرہ جنوبی پیسیفک اور بحیرہ انٹارکٹک کے خطے میں ان کی تعداد نصف رہ گئی ہے۔ فی الحال ان پینگوئنز کو ناپید ہونے کا خطرہ نہیں تاہم ان کی تعداد میں اس قدر کمی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں ہمیں کس طرح متاثر کر رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/U. Marcelino
6 تصاویر1 | 6
چوبیس جنوری کو درجہ حرارت نو عشاریہ دو ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا جبکہ ماضی میں اس اسٹیشن پر یہ زیادہ سے زیادہ چھ عشاریہ نو ڈگری ریکارڈ کیا گیا تھا۔ ماہرین کے مطابق تین دن کے اندر اندر درجہ حرارت میں اتنی زیادہ تبدیلی پہلی کبھی نہیں دیکھی گئی۔
اسی طرح اس براعظم کی دوسری سائیڈ، جسے جزیرہ نما انٹارکٹیک کہا جاتا ہے، پر بھی اب تک کا سب سے زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا ہے۔ وہاں ایسپرینزا بیس پر ارجنٹائن کے سائنسدانتحقیق کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق گزشتہ ماہ وہاں اٹھارہ عشاریہ تین ڈگری درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔
اس تبدیلی کے عالمی اثرات
اس تحقیق میں شامل سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انٹارکٹیکا کے موسم میں تبدیلیوں کے عالمی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ تحقیق میں کہا گیا ہےکہ، ''دنیا کا سمندری نظام یہاں سے جڑا ہوا ہے۔ گہرے سمندر میں پانی کی گردش کا ایک مستقل نظام موجود ہے اور یہی نظام سمندری گرمی یا درجہ حرارت کو زمین کے ارد گرد پہنچاتا ہے۔ اور اسی براعظم کی پگھلتیہوئی برف عالمی سطح سمندر میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔‘‘
یاد رہے کہ عالمی سطح سمندر میں اضافہ ہونے سے بنگلہ دیش جیسے ممالک کے کئی خشک زمینیحصے پانی میں ڈوب جائیں گے۔
موسمیاتی تبدیلوں کو سمجھنے کی کوشش
03:47
This browser does not support the video element.
اس تحقیق میں شامل مصنفہ ڈینا بیرگسٹروم کا کہنا تھا کہ گرمموسم ابتدائی طور پر تو مقامی آبادیوں کے لیے مثبت ثابت ہوتا ہے لیکن یہ بعدمیں خشک سالی کاسبب بننے کے ساتھ ساتھ سردی کی عادی مخلوقات کے لیے پریشان کن ثابت ہوتا ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق انٹارکٹیکا میں ابھی زیادہ تر حیوانات برف سے پاک چھوٹے چھوٹےنخلستانون میں پائے جاتے ہیں۔ ان کی زندگیوں کا انحصار پگھلتی ہوئی برف اور واٹر سپلائی پرہے۔
تیزی سے پگھلتی ہوئی برف انہیں مستقبل قریب میں تو فائدہ پہنچا سکتی ہے لیکن مستقلبنیادوں پر یہاں کا مکمل ایکو سسٹم تبدیل ہو جانے کا خطرہ ہے اور اس کے اثرات دنیا کے دیگرخطوں پر بھی مرتب ہوں گے۔
انٹارکٹک میں کام
نقطہء انجماد سے 55 درجے نیچے اور سال کا طویل حصہ اندھیرے میں۔ انٹارکٹیک خطے میں تحقیق کرنے والوں کے لیے چیلنجز بے شمار ہوتے ہیں۔ مگر بہت سی مثبت چیزیں بھی ان کے سامنے ہوتی ہیں۔
تصویر: British Antarctic Survey
آگے بڑھتی سائنس
جب ہیلی ششم پہلی بار انٹارکٹک پہنچایا گیا، تو یہ یہاں دنیا کی پہلی تجربہ گاہ تھا۔ یہاں رہائش کی بہتر سہولیات اور بہترین تجربہ گاہوں کے قیام اپنی جگہ، مگر یہ بڑی بڑی تنصیبات اپنی جگہ چھوڑنے میں دیر نہیں لگاتیں۔
تصویر: British Antarctic Survey
تبدیلی کے واضح اشارے
ہیلی ششم برف میں پڑنے والی بڑی دراڑ کی وجہ سے جگہ تبدیل کرنے پر مجبور ہے۔ یہ دراڑ مسلسل بڑی ہو رہی ہے۔ فی الحال اس اڈے کو خطرہ نہیں، مگر خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ یہ برفیلی چٹان مزید ٹوٹے گی۔
تصویر: British Antarctic Survey
خلائی موسمیاتی اسٹیشن
انٹارکٹیک میں ہیلی ششم کا کام مختلف انواع کی معلومات فراہم کرنا ہے، جن میں اوزون کی تہہ کا معاملہ، قطبی ماحول کی کیمسٹری اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا معاملہ شامل ہے۔ یہ پہلی تحقیق گاہ ہے، جس نے اوزون کی تہہ میں سوراخوں کا پتا چلایا تھا۔
اس تجربہ گاہ کے بیچوں بیچ یہ بڑا سرخ کنٹینر سائنس دانوں کی بیٹھک ہے۔ یہاں موسم گرما میں قریب 70 جب کہ موسم سرما میں قریب 16 محقق موجود ہوتے ہیں۔ دنیا کے اس دور افتادہ مقام پر یہ جگہ ان سائنس دانوں کو کام ایک طرف رکھ کر مل بیٹھ کر گفت گو کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
تصویر: British Antarctic Survey
تنصیب کی بہترین نشستیں
سال میں 105 دن ایسے ہوتے ہیں، جب یہاں مکمل اندھیرا ہوتا ہے، جب کہ ہیلی ششم اس وقت بھی 24 گھنٹے کام کرتا ہے۔ دنیا سے بالکل الگ تھلگ ہونے کے باوجود ایسا نہیں کہ یہاں زندگی کی چہل قدمی سنائی نہیں دیتی۔
تصویر: British Antarctic Survey
مربوط سرگرمیاں
یہ تجربہ گاہ آٹھ حصوں پر مبنی ہے۔ یہ تمام حصے خصوصی ہائیڈرولک ٹانگوں پر کھڑے ہیں۔ جب اسے تنصیب کو حرکت دینا ہو، تو ہر حصے کو الگ الگ کھینچا جا سکتا ہے۔ اس طرح باآسانی یہ تجربہ گاہ براعظم بھر میں کھسکائی جا سکتی ہے۔
تصویر: British Antarctic Survey
انتہائی سرد موسم
خوب صورت نظارے اور دلچسپ تحقیق ایک طرف مگر یہاں کا ماحول انسانی زندگی کے لیے انتہائی خطرناک بھی ہے۔ موسم سرما میں یہاں عمومی درجہ حرارت منفی بیس ہوتا ہے اور کبھی کبھی منفی 55 تک پہنچا جاتا ہے، جب کہ آس پاس کا سمندر منجمد ہو جاتا ہے۔