سائنس دانوں کی جانب سے جمعرات کے روز کہا گیا ہے کہ براعظم انٹارکٹیکا کی برف پگھلنے کے ساتھ ساتھ اس کی سرزمین بھی تیزی سے بلند ہو رہی ہے اور اس سے سمندری سطح میں اضافے کی رفتار کم ہو سکتی ہے۔
اشتہار
اس تازہ سائنسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماحولیاتی تغیر کے نتیجے میں جنوبی براعظم انٹارکٹیکا کی برف کے پگھلاؤ میں تیزی آ رہی ہے، مگر ساتھ ہی اس برف کے نیچے موجود زمین بھی بلند ہو رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سمندری سطح میں بلندی کی رفتار خدشات کے مقابلے میں کم ہو سکتی ہے۔
سائنس دانوں کے مطابق مغربی انٹارکٹیکا میں قشر ارض (سطح زمین) کے بلند ہونے کی رفتار چار اعشاریہ ایک میٹر سالانہ ہے، یعنی اس صدی کے آخر تک یہاں سرزمین چار میٹر سے زائد بلند ہو چکی ہو گی۔ بین الاقوامی سائنس دانوں کی ٹیم نے تحقیقی جریدے سائنس میں اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ بالکل یوں ہے، جیسے کوئی میٹرس (گدے) سے اٹھے اور وہ گدا دباؤ ختم ہونے کے بعد بلند ہو جائے۔
سائنس دانوں کے مطابق براعظم انٹارکٹیکا کی سرزمین کی بلندی میں بعض مقامات پر اضافے کا اندازہ رواں صدی کے اختتام تک آٹھ میٹر سے بھی زائد ہے۔ اس سے بنگلہ دیش اور فلوریڈا جیسے ساحلی علاقوں کو درپیش خطرات کے حوالے سے بہتری میں مدد مل سکتی ہے۔
یونیورسٹی آف ڈنمارک اور اوسکو اسٹیٹ یونیورسٹی سے وابستہ اس تحقیقی رپورٹ کی مصنف ویلینٹینا بارلیٹا نے کہا، ’’انٹارکٹیکا سے یہ ایک اچھی خبر ہے‘‘۔
انٹارکٹک میں کام
نقطہء انجماد سے 55 درجے نیچے اور سال کا طویل حصہ اندھیرے میں۔ انٹارکٹیک خطے میں تحقیق کرنے والوں کے لیے چیلنجز بے شمار ہوتے ہیں۔ مگر بہت سی مثبت چیزیں بھی ان کے سامنے ہوتی ہیں۔
تصویر: British Antarctic Survey
آگے بڑھتی سائنس
جب ہیلی ششم پہلی بار انٹارکٹک پہنچایا گیا، تو یہ یہاں دنیا کی پہلی تجربہ گاہ تھا۔ یہاں رہائش کی بہتر سہولیات اور بہترین تجربہ گاہوں کے قیام اپنی جگہ، مگر یہ بڑی بڑی تنصیبات اپنی جگہ چھوڑنے میں دیر نہیں لگاتیں۔
تصویر: British Antarctic Survey
تبدیلی کے واضح اشارے
ہیلی ششم برف میں پڑنے والی بڑی دراڑ کی وجہ سے جگہ تبدیل کرنے پر مجبور ہے۔ یہ دراڑ مسلسل بڑی ہو رہی ہے۔ فی الحال اس اڈے کو خطرہ نہیں، مگر خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ یہ برفیلی چٹان مزید ٹوٹے گی۔
تصویر: British Antarctic Survey
خلائی موسمیاتی اسٹیشن
انٹارکٹیک میں ہیلی ششم کا کام مختلف انواع کی معلومات فراہم کرنا ہے، جن میں اوزون کی تہہ کا معاملہ، قطبی ماحول کی کیمسٹری اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا معاملہ شامل ہے۔ یہ پہلی تحقیق گاہ ہے، جس نے اوزون کی تہہ میں سوراخوں کا پتا چلایا تھا۔
اس تجربہ گاہ کے بیچوں بیچ یہ بڑا سرخ کنٹینر سائنس دانوں کی بیٹھک ہے۔ یہاں موسم گرما میں قریب 70 جب کہ موسم سرما میں قریب 16 محقق موجود ہوتے ہیں۔ دنیا کے اس دور افتادہ مقام پر یہ جگہ ان سائنس دانوں کو کام ایک طرف رکھ کر مل بیٹھ کر گفت گو کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
تصویر: British Antarctic Survey
تنصیب کی بہترین نشستیں
سال میں 105 دن ایسے ہوتے ہیں، جب یہاں مکمل اندھیرا ہوتا ہے، جب کہ ہیلی ششم اس وقت بھی 24 گھنٹے کام کرتا ہے۔ دنیا سے بالکل الگ تھلگ ہونے کے باوجود ایسا نہیں کہ یہاں زندگی کی چہل قدمی سنائی نہیں دیتی۔
تصویر: British Antarctic Survey
مربوط سرگرمیاں
یہ تجربہ گاہ آٹھ حصوں پر مبنی ہے۔ یہ تمام حصے خصوصی ہائیڈرولک ٹانگوں پر کھڑے ہیں۔ جب اسے تنصیب کو حرکت دینا ہو، تو ہر حصے کو الگ الگ کھینچا جا سکتا ہے۔ اس طرح باآسانی یہ تجربہ گاہ براعظم بھر میں کھسکائی جا سکتی ہے۔
تصویر: British Antarctic Survey
انتہائی سرد موسم
خوب صورت نظارے اور دلچسپ تحقیق ایک طرف مگر یہاں کا ماحول انسانی زندگی کے لیے انتہائی خطرناک بھی ہے۔ موسم سرما میں یہاں عمومی درجہ حرارت منفی بیس ہوتا ہے اور کبھی کبھی منفی 55 تک پہنچا جاتا ہے، جب کہ آس پاس کا سمندر منجمد ہو جاتا ہے۔
تصویر: British Antarctic Survey
7 تصاویر1 | 7
انہوں نے بتایا کہ اس تحقیق کے لیے مغربی انٹارکٹیکا میں برف سے نیچے براعظم کی چٹانی سطح پر جی پی ایس سینسر نصب کیے گئے تھے۔ واضح رہے کہ مغربی انٹارکٹیکا برف کی موجودگی کے اعتبار سے اہم ترین ہے اور یہاں موجود برف پگھلنے سے سمندری سطح میں تین میٹر تک کے اضافے کے خدشات ہیں، تاہم اس علاقے کے قشر کا بلند ہونا سمندری سطح میں اضافے کی رفتار کو قابو میں رکھ سکتا ہے۔
گزشتہ ہفتے سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سن 1992 سے اب تک انٹارکٹیکا سے قریب تین ٹریلین ٹن برف پھگل کر سمندر میں شامل ہو چکی ہے۔