1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انٹارکٹیکا کی قدیم برف کی تہہ تک کھدائی کا بین الاقوامی منصوبہ

19 دسمبر 2012

ہزاروں سال پرانی برف کی سب سے اندرونی تہہ تک کھدائی کے اس بین الاقوامی منصوبے کا مقصد برف کی تہوں کے مشاہدے سے یہ پتہ چلانا ہے کہ ایک سیارے کے طور پر زمین کا وجود کس طرح عمل میں آیا۔

تصویر: AP

قطب جنوبی یا انٹارکٹیکا میں Aurora Basin North نامی اس منصوبے میں آسٹریلوی، فرانسیسی، ڈینش اور امریکی سائنسدان شامل ہوں گے اور اس قطبی تحقیقی منصوبے پر کام کا آغاز دسمبر 2013ء میں ہو گا۔ ماہرین کو امید ہے کہ کم از کم دو ہزار سال پرانی برف کی اندرونی اور سب سے گہری تہوں تک کھدائی سے انٹارکٹیکا کے بارے میں سائنسی تحقیق کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی اور بہت سے ارضیاتی اور ارتقائی رازوں سے پردہ اٹھایا جا سکے گا۔ انٹارکٹیکا یعنی ساؤتھ پول کے علاقے میں بہت سی جگہوں پر برف کی ایسی تہیں موجود ہیں جو لاکھوں سال پرانی ہیں۔

قطبی تحقیقی منصوبے پر کام کا آغاز دسمبر 2013ء میں ہو گاتصویر: AP

اس بین الاقوامی منصوبے کے تحت ’منجمد براعظم‘ کے ایک ایسے حصے میں کام کیا جائے گا، جہاں برف کی اتنی موٹی موٹی تہیں موجود ہیں کہ وہاں تین کلو میٹر تک کی گہرائی میں کھدائی کی جا سکتی ہے۔ برفانی تہوں کے نمونوں کے مطالعے سے ماہرین کے لیے وہاں ماضی میں رونما ہونے والے ماحولیاتی تغیرات کے شواہد تک رسائی ممکن ہو سکے گی۔

آسٹریلوی وزیر ماحولیات ٹونی برک (Tony Burke) نے اس منصوبے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ انٹارکٹیکا میں اپنی نوعیت کی اس اولین کھدائی سے اس بات کو سمجھنے میں بھی مدد ملے گی کہ زمین پر ماحولیاتی تبدیلیاں کس طرح اور کس رفتار سے رونما ہوئیں اور مستقبل میں ان کے دہرائے جانے کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔

برف کی ایسی تہیں موجود ہیں جو لاکھوں سال پرانی ہیںتصویر: AP

ٹونی برک نے کہا، ’برف کی یہ تہیں زمین کے ماحول اور زمین پر پانی کی ناقابل تردید تاریخ کے لاکھوں برسوں کا احاطہ کرتی ہیں۔ ہمیں یہ تومعلوم ہے کہ یہ برف ہزاروں سال پرانی ہے لیکن اس کی تہوں میں چھپے ان حقائق تک ہمیں کبھی رسائی حاصل نہیں ہوئی، جن کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ وہ یقیناﹰ وہاں موجود ہیں‘۔

آسٹریلوی حکومت کو توقع ہے کہ یہ ماحولیاتی ریسرچ پروجیکٹ آئندہ برسوں میں برف کی دس لاکھ سال تک پرانی تہوں کی کھدائی کی راہ ہموار کر دے گا۔

rh / mm (AFP)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں