جنوبی ریاست کرناٹک سے تعلق رکھنے والی بانو مشتاق کنّڑ زبان کی پہلی مصنفہ ہیں، جنہیں ترجمہ شدہ افسانے کے لیے ایوارڈ ملا ہے۔ ان کی مختصر کہانیوں کا مجموعہ 'ہارٹ لیمپ' (چراغ قلب) تیس برسوں کی کاوشوں پر محیط ہے۔
تقریب میں انعام کی قبولیت کی تقریر کے دوران، بانو مشتاق نے اس ایوارڈ کو ایک عظیم اعزاز' قرار دیا اور اسے اجتماعی آواز کی فتح بتایا تصویر: Wiktor Szymanowicz/Anadolu/picture alliance
اشتہار
بھارتی مصنفہ اور کارکن بانو مشتاق کو، ان کی مختصر کہانیوں کے مجموعے "ہارٹ لیمپ" (چراغ قلب) کے لیے منگل کو بین الاقوامی بکر پرائز سے نوازا گیا۔ بانو مشتاق ترجمہ شدہ افسانوں کے لیے انعام جیتنے والی کنڑ زبان کی پہلی مصنفہ ہیں۔
77 سالہ بانو مشتاق پچاس ہزار ڈالر کی انعامی رقم اپنی مترجم دیپا بھاستھی کے ساتھ شیئر کریں گی، جنہوں نے ایوارڈ یافتہ مجموعے میں شامل کہانیوں کو منتخب کرنے میں بھی مدد کی تھی۔
یہ پہلا موقع ہے جب مختصر کہانیوں کے مجموعے کو یہ ایوارڈ دیا گیا ہے۔ بھاستھی بھی انعام جیتنے والی پہلے بھارتی مترجم ہیں، جنہوں نے سن 2016 میں اس مجموعے کو موجودہ شکل دی تھی۔
بین الاقوامی سالانہ بکر پرائز انگریزی زبان کے افسانوں کے بکر پرائز کے ساتھ ہی اعلان کیا جاتا ہے، تاہم مؤخر الذکر کو موسم خزاں میں دیا جاتا ہے۔
ایوارڈ کی تقریب لندن کے ٹیٹ ماڈرن میوزیم میں منعقد ہوئی اور اس کا اعلان سب سے زیادہ فروخت ہونے والے بکر پرائز کی طویل فہرست میں شامل مصنف میکس پورٹر نے کیا، جو پانچ رکنی ووٹنگ پینل کے سربراہ بھی ہیں۔
پورٹر نے "ہارٹ لیمپ" کو "انگریزی قارئین کے لیے حقیقی طور پر نئی چیز" قرار دیا۔
پورٹر نے کہا، "یہ خوبصورت، مصروف، زندگی کی تصدیق کرنے والی کہانیاں کنڑ سے جنم لیتی ہیں، جو دوسری زبانوں اور بولیوں کی غیر معمولی سماجی-سیاسی فراوانی سے مطابقت رکھتی ہیں۔"
بانو مشتاق کے افسانوں کے جس مجموعے کو انعام سے نوازہ گیا ہے، اس میں سن 1990 اور 2023 کے درمیان لکھی گئی ان کی کہانیاں شامل ہیں تصویر: Wiktor Szymanowicz/Anadolu/picture alliance
ان کا مزید کہنا تھا، "یہ خواتین کی زندگی، تولیدی حقوق، عقیدے، ذات پات، طاقت اور جبر پر بات کرتی ہیں۔"
بانو مشتاق نے اپنی جیت کو 'اجتماعی' قرار دیا
تقریب میں انعام کی قبولیت کی تقریر کے دوران، بانو مشتاق نے اس ایوارڈ کو ایک "عظیم اعزاز" قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اسے "ایک فرد کے طور پر نہیں بلکہ بہت سے دوسرے لوگوں کے ساتھ آواز میں آواز ملانے کے طور پر حاصل کر رہی ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ "ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اس لمحے ہزاروں جگنو ایک ہی آسمان کو روشن کر رہی ہوں -- مختصر، شاندار اور مکمل طور پر اجتماعی کوشش ہے"۔
بھارت میں کنڑ زبان تقریباً 65 ملین لوگ بولتے ہیں، بنیادی طور پر یہ جنوبی بھارت کی ریاست کرناٹک کی سرکاری زبان ہے۔
بانو مشتاق نے سن 1990 اور 2023 کے درمیان مجموعے میں شامل مختصر کہانیاں لکھیں۔ بھاستھی بھی اپنے کیوریشن اور ترجمہ میں جنوبی بھارت کی کثیر لسانی فطرت کو برقرار رکھنے کی خواہاں تھیں۔
اس مجموعہ کو اس کے خشک اور نرم مزاح، لطیف انداز اور پدرانہ نظام ، ذات پات اور مذہبی قدامت پسندی جیسے مسائل پر تبصرہ کے لیے تنقیدی طور پر سراہا گیا ہے۔
ادارت: جاوید اختر
بُکر پرائز: ادبی روایت تبدیل کرنے والے ادیب
بُکر پرائز کو عالمی ادب کا آسکر ایوارڈ قرار دیا جاتا ہے۔ سن 1997 میں اروندھتی رائے سے سن 2020 میں ڈگلس اسٹوارٹ تک اس پرائز کو جیتنے والوں کا مختصر احوال اس پکچر گیلری میں ملاحظہ کریں:۔
تصویر: Picture-Alliance /dpa/Photoshot
اروندھتی رائے
بھارتی ادیبہ اروندھتی رائے کو بُکر پرائز ان کے ناول The God of Small Things پر سن 1997 میں دیا گیا۔ یہ جنوبی بھارتی ریاست کیرالا میں سن 1960 کی سیاسی افراتفری کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ اس ناول کا پلاٹ بھارت میں ذات پات کے نظام، مذہبی تنوع اور بہت گنجلک سماجی درجہ بندیوں میں گندھا ہوا ہے۔
تصویر: Picture-Alliance /dpa/Photoshot
مائیکل اونڈاچی
سن 1992 کا بُکر پرائز ’دا انگلش پیشنٹ‘ نامی ناول کے مصنف مائیکل اونڈاچی کو دیا گیا۔ اونڈاچی سری لنکن نژاد کینیڈین شاعر اور ادیب ہیں۔ ان کے ناول کا پس منظر دوسری جنگ عظیم کا ہے اور اس میں چار زندگیوں کا احاطہ کیا گیا جو ایک اطالوی مکان کے مکین تھے۔ اس ناول پر ایک فلم بھی بنائی گئی تھی اور اسے سن 1996 میں نو آسکر ایوارڈز ملے تھے۔
تصویر: Imago/ZUMA Press/R. Tang
مارگریٹ ایٹ وُوڈ
سن 2000 میں کینیڈین مصنفہ مارگریٹ ایٹ وُوڈ کو ان کی بہترین تخلیق The Handmaid's Tale پر بکر پرائز سے نوازا گیا۔ یہ کئی پرتوں والی ایک کہانی پر مشتمل ہے، جسے ماضی سے حال کو کہانی اور حقیقت کی روایت سے بُنا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D.Calabrese
ہِلیری مینٹل
سن 2012 میں ناول ’وولف ہال‘ کی مصنفہ ہِلیری مینٹل کو ناول Bring up the Bodies کو بکر پرائز دیا گیا۔ برطانوی ادیبہ وہ پہلی خاتون ناول نگار ہیں جو دو مرتبہ بکر پرائز کی حقدار ٹھہرائی گئیں۔ ان کے ایک اور ناول ’وولف ہال‘ کو بھی اس پرائز سے نوازا گیا تھا۔ ناول ’برنگ اپ دی باڈیز‘ میں ٹیوڈر خاندان کے بادشاہ ہنری ہشتم کی بیٹے کی خواہش کو سمویا گیا ہے اور یہ ٹیوڈر دور کا تاریخی تسلسل قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: AP
رچرڈ فلانیگن
سن 2014 میں بکر پرائز آسٹریلین ناول نگار رچرڈ فلانیگن کو ان کے ناول The Narrow Road to the Deep North پر دیا گیا۔ یہ بھی ایک تاریخی واقعات پر مبنی ناول ہے اور اس کا منظر نامہ دوسری عالمی جنگ میں تھائی لینڈ برما ڈیتھ ریلوے پر مبنی ہے۔ اس ناول کا مرکزی کردار ایک آسٹریلین سرجن کا ہے، جو لوگوں کو بھوک، ہیضہ اور تشدد سے بچانے کی کوششوں میں مصروف رہتا ہے۔
جارج سانڈرز
سن 2017 میں امریکی کہانی کار جارج سانڈرز کے طویل ناول ’لنکن ان دا بارڈو‘ کو اس معتبر انعام کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ بُکر پرائز کی جیوری نے اس ناول کو تجرباتی اور اختراعی قرار دیا تھا۔ اس ناول میں سابق امریکی صدر ابراہام لنکن کی روح اپنے گیارہ سالہ بیٹے کے جسم کو دیکھنے جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/R. Tang
برنارڈین ایوارسٹو
سن 2019 میں برطانوی ادیبہ برنارڈین ایوارسٹو کو ان کے ناول Girl, Woman, Other کی وجہ سے بکر پرائز دیا گیا۔ وہ پہلی سیاہ فام ادیبہ ہیں جو بکر پرائز کی حقدار ٹھہرائی گئی تھیں۔ اس ناول میں برطانیہ پہنچنے والے بارہ افراد کے مختلف نسلوں اور سماجی طبقات سے متعلق تجربات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان افراد میں زیادہ تر خواتین تھیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
ڈگلس اسٹوارٹ
سن 2020 میں اسکاٹش نژاد امریکی ادیب ڈگلس اسٹوارٹ کو ان کے اولین ناول Shuggie Bain پر بُکر پرائز دیا گیا۔ اس ناول کو لکھنے میں اسٹوارٹ نے دس برس صرف کیے اور اس کا مسودہ بتیس مرتبہ مختلف اشاعتی اداروں نے مسترد کیا تھا۔ یہ ناول کسی حد تک ایک خود نوشت ہے اور اس میں اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں ایک ہم جنس پسند کی جدوجہد کو سمویا گیا ہے۔
تصویر: Grove/AP/picture alliance
Damon Galgut - 'The Promise' (2021)
ڈیمن گالگوٹ
سن 2021 میں جنوبی افریقی ادیب ڈیمن گالگوٹ کو ناول The Promise پر بکر پرائز سے نوازا گیا۔ وہ قبل ازیں دو مرتبہ شارٹ لسٹ بھی کیے گئے تھے۔ اس ناول میں گالگوٹ نے جنوبی افریقہ میں ایک ایسے سفید فام کسان کے مادر شاہی خاندان کا احوال بیان کیا ہے، جو اپنی والدہ سے اس کی موت کے وقت کیا گیا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہتا ہے کہ اسے ایک سیاہ فام خاتون کو اپنی ملکیت زمین پر ایک مکان دینا چاہیے۔