جرمن شہر آخن سے دیا جانے والا یہ پرائز خالص یورپی انعام تصور کیا جاتا ہے۔ یہ پرائز سن 1950 میں قائم کیا گیا تھا اور سالانہ بنیاد پر دیا جاتا ہے۔
اشتہار
جرمنی کے انٹرنیشنل شارلیمان پرائز کا حقدار فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کو ٹھہرایا گیا ہے۔ یہ انعام ہر برس یورپی اتحاد کے سلسلے میں کام کرنے کے اعتراف میں دیا جاتا ہے۔ جرمن شہر آخن کی جانب سے گزشتہ سڑسٹھ برسوں سے ہر سال کسی ایک شخصیت کو اس پرائز کا میڈل دیا جاتا ہے۔
اس انعام کے اعلان میں واضح کیا گیا کہ فرانسیسی صدر نے نئے یورپ کی تعمیر و تشکیل کے حوالے سے جو تصور پیش کیا ہے، وہ یقینی طور پر قابلِ تعریف ہے۔ ماکروں نے نئی یورپی حاکمیت، براعظم یورپ کے سیاسی ڈھانچے میں تبدیلی اور یورپی اقوام و عوام کے درمیان تعاون بڑھانے کا تصور پیش کیا ہے۔
انعام دینے کی تقریب ہر برس مئی میں شہر کے ٹاؤن ہال میں منعقد ہوتی ہے۔ سن 2008 سے آخن شہر کی شارلیمان پرائز کمیٹی اوریورپی پارلیمنٹ نے مشترکہ طور پر شارلیمان یوتھ پرائز کا سلسلہ شروع کیا ہے۔
اسی شہر سے مشہور تاریخی بادشاہ شارلیمان نے مغربی یورپ پر حکمرانی کی تھی اور یہ پرائز بھی انہی کے نام پر ہے۔ اس بادشاہ کی رحلت سن 814 میں ہوئی تھی اور انہیں آخن ہی میں دفن کیا گیا تھا۔ ان کا دورِ حکومت تیرہ برسوں پر محیط تھا۔
ماکروں سے پہلے اس انعام کے حاصل کرنے والوں میں امریکی صدر بل کلنٹن، پوپ فرانسس اور جان پال دوم بھی شامل ہیں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو اس پرائز سے سن 2008 میں نوازا گیا تھا۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما مارٹن شلس کو سن 2015 میں اس پرائز کا حقدار ٹھہرایا گیا تھا۔
جرمن فیوچر پرائز 2016ء: نئی ایجادات
2016ء کی بہترین ایجاد کا جرمن فیوچر پرائز کاربن کنکریٹ نے جیتا ہے، جس کا مقابلہ ایک کم خرچ انجن اور لیزر لائٹس سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Daniel Karmann
جرمن فیوچر پرائز کی ٹرافی
جرمن فیوچر پرائز 1997ء سے ہر سال تین ٹیموں کو اُن کی شاندار ایجادات کی بناء پر اس انعام کے لیے نامزد کرتا ہے۔ تیس نومبر کو ان میں سے ایک ہی ٹیم کو یہ ٹرافی اور اس کے ساتھ ڈھائی لاکھ یورو مالیت کے انعام سے نوازا گیا۔ یہ وہ ٹیم ہے، جس نے کاربن کے غلاف والا کنکریٹ تیار کیا ہے۔
تصویر: Deutscher Zukunftspreis
ٹیم نمبر ایک فاتح ٹھہری: ہائی ٹیک لُوم
اور یوں بنتا ہے کاربن کے غلاف والا یہ کنکریٹ: اس تصویر میں دھاگا بُنا جا رہا ہے لیکن یہ کوئی عام دھاگا نہیں ہے۔ یہ کاربن کے دھاگے ہیں، جنہیں آگے چل کر تعمیرات کو مضبوط بنانے کا کام انجام دینا ہے۔ اس ایجاد کا سہرا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی کے سر ہے اور یہ ایجاد ٹیکسٹائل مشینوں اور زیادہ استعداد والے ٹیکسٹائل مادوں کے انسٹیٹیوٹ میں تیار ہوئی ہے۔
تصویر: Deutscher Zukunftspreis/Ansgar Pudenz
سرخ روشنی میں طاقتور ہوتے کاربن دھاگے
کاربن کے دھاگے عمارتوں کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال ہونے والے روایتی فولادی غلاف کے مقابلے میں زیادہ لچکدار ہوتے ہیں۔ اس تصویر میں ان دھاگوں کو سرخ روشنی میں خشک کیا اور پکایا جا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں انتہائی مضبوط غلافی مادہ تیار ہوتا ہے۔
تصویر: Deutscher Zukunftspreis/Ansgar Pudenz
دھاگوں کے رول
کاربن کے یہ مادے خصوصی صلاحیتوں کے حامل دھاگوں کی مختلف اَقسام پر مشتمل ہوتے ہیں۔ کسی عمارت پر آگے چل کر پڑنے والے وزن کی مناسبت سے انجینئر ایسے غلاف تیار کر سکتے ہیں، جن کی انہیں ضرورت ہوتی ہے۔
تصویر: Deutscher Zukunftspreis/Ansgar Pudenz
پتلی دیواریں
اس نئے کاربن غلاف کی مدد سے بنی ہوئی کنکریٹ کی دیواریں اتنی مضبوط ہیں کہ اُن کے لیے چند سینٹی میٹر کی موٹائی ہی کافی ہے۔ اس طرح انتہائی ہلکے اور نازک تعمیراتی منصوبوں کو بھی عمل شکل دی جا سکتی ہے۔ اِس کاربن کنکریٹ کو فرنیچر، جیسے کہ میزوں اور بینچوں کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Deutscher Zukunftspreis/Ansgar Pudenz
سائز کا موازنہ دیکھیے
اس تصویر میں بائیں جانب فولاد والا کنکریٹ ہے جبکہ دائیں جانب کاربن کنکریٹ ہے اور دونوں ایک جتنے مضبوط ہیں۔ کاربن کنکریٹ کا ایک فائدہ اور بھی ہے اور وہ یہ کہ اگر کسی وجہ سے عمارت میں پانی آ جائے تو کاربن کو زنگ نہیں لگے گا اور وہ اپنی مضبوطی بھی برقرار رکھے گا۔ ایسے میں پُلوں اور دیگر تعمیرات کی عمر زیادہ طویل ہو گی۔
تصویر: Deutscher Zukunftspreis/Ansgar Pudenz
اور یہ خوبصورت بھی ہے
کون کہتا ہے کہ کنکریٹ بدصورت ہوتا ہے؟ کاربن کنکریٹ کے ہوتے ہوئے کئی ماہرینِ تعمیرات کو تعمیر میں استعمال ہونے ولے اصل مادے کے اوپر دھاتی پلیٹیں لگانے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور وہ بروٹل ازم (فرانسیسی لفظ بیٹون بروٹ سے ماخوذ) نامی اُس جدید طرزِ تعمیر کی طرف لوٹ سکیں گے، جس میں کسی عمارت کی تعمیر میں استعمال ہونے والے اصل مادے کو چھپایا نہیں جاتا۔
تصویر: Deutscher Zukunftspreis/Ansgar Pudenz
ٹیم نمبر دو: انجن کے سلنڈر کے لیے نینو ذرّات
یہ ہے وہ خصوصی جَیٹ نوزل، جس کی مدد سے کسی گاڑی کے انجن کے سلنڈر کی اندرونی سطح پر نینو یعنی انتہائی چھوٹے سائز کے ذرات کی کوٹنگ کی جاتی ہے۔ نینو ذرات کی حامل سطح پر ایسے متعدد مائیکرواسکوپک مسام بن جاتے ہیں، جہاں موبل آئل جیسے مائعات ذخیرہ ہو جاتے ہیں اور انہی کی وجہ سے انجن تقریباً کسی رگڑ کے بغیر کام کر سکتا ہے۔
تصویر: Deutscher Zukunftspreis/Ansgar Pudenz
بھاپ سے نکلنے والے نینو ذرّات
انجن کے سلنڈر کے اندر لوہے اور کاربن الائے سے بنی دو تاروں کے ذریعے روشنی پیدا کی جاتی ہے۔ وہاں نائٹروجن گیس کی مدد سے دھات کے ننھے منے قطرے بھاپ کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔ اس عمل کے دوران دھات پر نینو ذرّات کی ایک انتہائی باریک تہ جم جاتی ہے۔
تصویر: Deutscher Zukunftspreis/Ansgar Pudenz
صاف ستھرا حل
اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سلنڈر کی بالائی سطح کس قدر ہموار ہے۔ رگڑ اتنی کم ہوتی ہے کہ آج کل کے روایتی انجن میں تین فیصد تک ایندھن کی بچت کی جا سکتی ہے۔ اس طرح آئندہ انجن کو ہلکا اور چھوٹا بنایا جا سکے گا کیونکہ کئی اضافی چیزوں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
تصویر: Deutscher Zukunftspreis/Ansgar Pudenz
ٹیم نمبر تین: اندھیرے کے لیے بہتر روشنی
بی ایم ڈبلیو اور اوسرام کے محققین نے کاروں کے لیے ایک نئی روشنی ایجاد کی ہے۔ اُنہوں نے لیزر کو روشنی کے ذریعے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ مسئلہ لیکن یہ ہے کہ اس لیزر سے نیلی روشنی نکلتی ہے جبکہ منظر کو اچھی طرح سے دیکھنے کے لیے خوبصورت سفید روشنی درکار ہوتی ہے۔
تصویر: Deutscher Zukunftspreis/Ansgar Pudenz
روشنی کا رنگ نیلے سے سفید میں بدل جاتا ہے
خاص طرح کی سیرامکس کی مدد سے نیلی روشنی کے ایک حصے کو پیلی روشنی میں بدل دیا جاتا ہے۔ پھر نیلی اور پیلی روشنی کے کچھ حصے آپس میں مل کر ایک بالکل سفید روشنی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
تصویر: Deutscher Zukunftspreis/Ansgar Pudenz
آنکھیں نہ چُندھیائیں
ایک پیچیدہ الیکٹرانک طریقے سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ کار کی روشنیوں سے سامنے سے آنے والی یا آگے آگے چلنے والی کاروں کے ڈرائیوروں کی آنکھیں نہیں چُندھیاتیں۔ پیدل چلنے والوں اور ہرنوں وغیرہ کی آنکھیں بہرحال چُندھیا جاتی ہیں۔
تصویر: Deutscher Zukunftspreis/Ansgar Pudenz
دُور تک جاتی روشنی
یہ ہے کاروں کے لیے بنائی گئی نئی روشنی، جو چھ سو میٹر دور تک جاتی ہے اور جسے اس تصویر میں آج کل سڑکوں پر چلنے والی ایک کار میں نصب دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ روشنی جرمن فیوچر پرائز تو نہیں جیت سکی لیکن یہ جیتنے والی ٹیم کے ساتھ ساتھ یہ دونوں ٹیمیں بھی اپنی شاندار ایجادات پر خراجِ تحسین کی مستحق ہیں۔