انٹرنیشنل ہیلتھ ایمرجنسی کیسز، عالمی ادارہ صحت دباؤ میں
28 مئی 2023
کووڈ انیس سے لے کر ہیضے تک کی وباؤں نے عالمی ہنگامی صورت حال میں عالمی ادارہ صحت کے وسائل پر دباؤ مزید بڑھا دیا ہے۔ اب اس ادارے کو انٹرنیشنل ہیلتھ ایمرجنسی کے واقعات سے نمٹنے کے لیے پچاس فیصد زیادہ بجٹ درکار ہے۔
اشتہار
عالمی ادارہ صحت کے لیے اس نئی تشویش کی وجہ بار بار سامنے آنے والے انٹرنیشنل ہیلتھ ایمرجنسی کے واقعات ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک سینیئر مشیرکا کہنا ہے کہ ان عالمی یا بین الاقوامی وباؤں کی وجہ سے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) صحت عامہ کے شعبے میں کئی مرتبہ جن ہنگامی حالات کا اعلان کرنے پر مجبور ہوا، ان کے باعث خود اس ادارے پر پڑنے والا بوجھ اور زیادہ ہو گیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس ادارےکے ہنگامی ردعمل کا جائزہ لینے والی کمیٹی کے سربراہ پروفیسر ولید عمار نے کہا کہ دنیا بھر صحت کی صورت حال کے باعث ڈبلیو ایچ او سے مسلسل بڑھتے ہوئے مطالبات کے نتیجے میں دستیاب فنڈز اور عملے کے مابین خلیج اور وسیع ہوتی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا، ''پروگرام بہت زیادہ پھیلا ہوا ہے کیونکہ مطالبات صرف ہنگامی حالات کی کثرت اور پیچیدگی کے ساتھ بڑھے ہیں۔''
اس کمیٹی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سال مارچ تک ڈبلیو ایچ او صحت کی 53 اعلیٰ سطحی ایمرجنسیز کا جواب دے رہا تھا۔ ان میں کووڈ انیس، ہیضہ اور ماربرگ وائرس پھیلنے جیسی وبائی بیماریاں بھی شامل تھیں۔ ان کے علاوہ اس عالمی ادارے کو ترکی اور شام میں زلزلے اور پاکستان میں تباہ کن سیلابوں جیسے انسانی بنیادوں پر ہنگامی حالات کا سامنا بھی رہا۔
اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں سیلابوں اور طوفانوں جیسے قدرتی واقعات کی تعداد اور تواتر میں بھی اضافہ کر رہی ہیں اور ان سب کے نتائج سے صحت کا شعبہ بھی متاثر ہوتا ہے۔
کورونا سے بچاؤ: ويکسين کارآمد ہيں بھی يا نہيں؟
05:26
دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ 2022-2023 کے لیے ڈبلیو ایچ او کا ایمرجنسی پروگرام اپنے بنیادی بجٹ کا صرف 53 فیصد کے قریب حصہ ہی حاصل کر سکا ہے۔ اسی لیے اس حوالے سے رپورٹ میں مزید مستحکم فنڈنگ کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او اور اس کے رکن ممالک اس بات کو بہتر بنانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں کہ وہ صحت کی کسی بھی ہنگامی صورت حال کے ساتھ کس طرح نمٹیں اور ڈبلیو ایچ او کی مالی اعانت میں اضافے کے مزید کون کون سے طریقے استعمال کریں۔ اس ضمن میں پیر 22 مئی کو رکن ممالک نے ایک نیا بجٹ بھی منظور کیا، جس میں ان کی طرف سے لازمی مالی ادائیگیوں میں 20 فیصد اضافہ بھی شامل تھا۔
اس رپورٹ میں ڈبلیو ایچ او سے اپنی کارکردگی میں مزید بہتری لانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
ش ر⁄ م م (روئٹرز)
کووڈ کے دوران والدین کو کھو دینے والے بچے
امریکا میں کووڈ انیس کی وبا سے ہونے والی ہلاکتیں دس لاکھ سے بڑھ گئی ہیں۔ اس وبا کے دوران ہزاروں بچے اپنے والدین یا کم از کم ماں باپ میں سے کسی ایک سے محروم ہو گئے ہیں۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
’افسوس ناک ترین واقعہ‘
چودہ سالہ جولیئس گارزا اپنے والد کے دکھ کو کمپیوٹر گیمز کھیل کر بھلانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے والد دسمبر سن 2020 میں کووڈ انیس کی وجہ سے دم توڑ گئے تھے۔ وہ اور اس کا بھائی اس دن کو یاد کرتے ہیں جب سن 2015 میں ان دونوں کو مارگریٹ اور ڈیوڈ نے اپنی کفالت میں لیا تھا۔ جولیئس کے مطابق ڈیوڈ کی موت اس کی زندگی کا انتہائی دکھ بھرا وقت تھا اور شاید وہ اس کو کبھی بھی بھول نہیں سکے گی۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
والد کی یاد میں
جولیئس گارزا کی عمر چودہ اور ان کا بھائی عیدان گارزا کی عمر بارہ سال ہے۔ وہ اپنے والد کو ہر مہینے کی تیس تاریخ کو خاص طور پر اپنی دعا میں یاد کرتے ہیں۔ مارگریٹ کے شوہر مرحوم ڈیوڈ کی سالگرہ تیس اپریل کو ہوتی ہے اور وہ کووڈ انیس کی وجہ سے تیس دسمبر سن 2020 کو موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
صورت حال سمجھنے کی کوشش
مارگریٹ گارزا اور ان کا بیٹا جولیئس تصویر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ڈیوڈ اور ان کے بھائی کے اصل والد کو سوتیلی بیٹی کا جنسی استحصال کرنے کے جرم میں جیل بھیج دیا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد ڈیوڈ ان کے کفیل بن گئے تھے۔ اب جولیئس اس کوشش میں ہے کہ وہ ڈیوڈ کی موت کو سمجھ پائے۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
ناقابلِ تلافی نقصان
جوسٹس میکگوون تیرہ سال کی ہیں اور وہ بھی اپنے والد کو کووڈ انیس کی وبا میں کھو چکی ہیں۔ جوسٹس کے والد مئی سن 2020 میں بیماری سے سنبھل نہیں سکے تھے۔ وہ اپنے والد کی سالگرہ کے دن سیڑھیوں میں بیٹھ کر انہیں یاد کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا میں ایک ملین افراد ہلاک ہوئے یعنی کھانے کی میز پر ایک ملین خالی کرسیاں، یہ ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
’وہ وہی کرتی ہے جو والد کیا کرتے تھے‘
جوسٹس کی والدہ ڈاکٹر سینڈرا میکگووں واٹس کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کے معمولات کو سنبھالے ہوئے ہیں لیکن وہ اپنے والد کے انداز کو اپنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ گزشتہ برس گھر میں اُگی جھاڑیوں کو اس نے باپ کا ٹرمر اٹھا کر کاٹا تھا۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
ایک مشترکہ روایت
جوسٹس میکگوون گھر میں اوون میں سے بسکٹوں کو باہر نکال رہی ہے، ایسا وہ اپنے مرحوم باپ کے سامنے کیا کرتی تھی۔ زندگی کئی بچوں کے لیے تبدیل ہو کر رہ گئی ہے لیکن وہ جذباتی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
ہزاروں بچوں کے والدین میں سے ایک اب زندہ نہیں
ابھی تک ان امریکی بچوں کی فلاح و بہبود کسی حکومتی پروگرام میں شامل نہیں، جن کے والدین میں سے ایک وبا کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں۔ محققین کے مطابق امریکا میں دو لاکھ تیرہ ہزار سے زائد ایسے بچے ہیں جن کے والدین میں سے ایک کووڈ انیس کی وجہ سے دنیا سے چلے گئے ہیں
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
بادلوں کو چھونے جیسا
عیدان گارزا اپنے باپ کی پسندیدہ کرسی پر بیٹھ کر ان کو یاد کرتے ہوئے کہنے لگا کہ ڈیوڈ ایک سیدھے اصولوں والا انسان تھا۔ عیدان کے مطابق ڈیوڈ ایک پرجوش اور نرم دل انسان تھے اور جب بھی وہ ان کے گلے لگتا تھا تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ بادلوں کو چھو رہا ہے۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
’ہمارا حالات دوسروں کی طرح نہیں ہیں‘
عیدان، جولیئس اور مارگریٹ ڈیوڈ کی تصویر کی تصویر کے سامنے اکھٹے ہیں۔ یہاں وہ برتن بھی رکھا ہوا ہے، جس میں ڈیوڈ کی راکھ ہے۔ مارگریٹ اپنے شوہر کی موت کے بعد اپنے بچوں کی نفسیاتی کاؤنسلنگ بھی کروا چکی ہے۔ عیدان اور جولیئس کا کہنا ہے کہ ان کا نارمل دوسرے خاندانوں جیسا نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ اپنا ایک عزیز اس وبا میں کھو چکے ہیں۔