انٹرنیٹ ادارے منافع میں حصہ دار بنائیں، نیوز ایجنسیز
عابد حسین
14 دسمبر 2017
مختلف نیوز ایجنسیوں نے بڑے انٹرنیٹ اداروں سے کہا ہے کہ وہ اپنے منافع میں انہیں بھی شریک کریں۔ خبر رساں اداروں کے مطابق انٹرنیٹ ادارے اُن کی نیوز پر اشتہار چسپاں کر کے بہت زیادہ کمائی کر رہے ہیں۔
اشتہار
نیوز ایجنسیوں کا یہ مطالبہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب اس صورت حال پر یورپی یونین میں غور و خوص جاری ہے۔ ان ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ فیس بک، گوگل اور ٹویٹر پر اُن کے نیوز پر مبنی مضامین کی دوبارہ اشاعت اِن اداروں کے لیے آمدن کا بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔
نیوز ایجنسیوں کا یہ مطالبہ معتبر فرانسیسی اخبار لیموند میں شائع کیا گیا ہے۔ مطالبہ کرنے والوں میں فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی بھی شامل ہے۔ اس اخبار میں شائع ہونے والے مطالبے پر مبنی رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ ان انٹرنیٹ اداروں کے پاس خبریں جمع کرنے کا کوئی بنیادی طریقہ یا نظام موجود نہیں ہے۔
خبر رساں اداروں کا کہنا ہے کہ اس وقت فیس بُک ایک بڑے میڈیا ہاؤس کی حیثیت اختیار کر چکا ہے لیکن بشمول گوگل اور ٹویٹر، یہ کوئی نیوز روم نہیں رکھتے اور نہ ہی اُن کے پاس ایسے صحافی ہیں، جو اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھ کر جنگ زدہ اور خطرناک علاقوں سے رپورٹنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نیوز فراہم کرنے والے اداروں نے اسے کاپی رائٹ کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
اس مشترکہ اعلان میں کہا گیا کہ صرف فیس بُک نے رواں برس کے دوران دس بلین ڈالر سے زائد کمائے ہیں اور اسی طرح ٹویٹر اور گوگل کو بھی اربوں ڈالر کی آمدن ہوئی ہے۔ اندازوں کے مطابق ان انٹرنیٹ جائنٹس کو ملنے والے اشتہاروں میں بھی حیران کن اضافہ ہوا ہے۔
SMS کی 25 ویں سالگرہ
25 برس قبل آج ہی کے دن یعنی تین دسمبر 1992 کو اولین ایس ایم ایس بھیجا گیا تھا۔ موبائل کمپنیوں نے ایس ایم ایس کے ذریعے اربوں روپے کمائے۔ لاتعداد انٹرنیٹ ایپلیکیشنز کے باوجود مختصر SMS آج بھی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture-alliance/Maule/Fotogramma/ROPI
ایس ایم ایس کی دنیا
تین دسمبر 1992ء کو 22 سالہ سافٹ ویئر انجینیئر نائل پاپورتھ نے دنیا کا پہلا ایس ایم ایس پیغام اپنے ساتھی رچرڈ جاروِس کو ارسال کیا تھا۔ نائل پاپورتھ ووڈا فون کے لیے شارٹ میسیج سروس کی تیاری پر کام کر رہے تھے۔
تصویر: DW/Brunsmann
’’میری کرسمس‘‘
25 سال پہلے کے سیل فون بھی ایس ایم ایس بھیج یا وصول نہیں کرسکتے تھے۔ لہٰذا پہلے ایس ایم ایس کو موبائل فون سے نہیں بلکہ کمپیوٹر سے بھیجا گیا تھا۔ ایس ایم ایس سسٹم کے پروٹوٹائپ کا ٹیسٹ کرنے کے لیے ووڈا فون کمپنی کے تکنیکی ماہرین کا پہلا ایم ایم ایس تھا، ’’میری کرسمس‘‘.
تصویر: Fotolia/Pavel Ignatov
160 کریکٹرز کی حد
ایس ایم ایس پوسٹ کارڈ وغیرہ پر پیغامات لکھنے کے لیے 160 حروف یا اس سے بھی کمی جگہ ہوتی تھی اسے باعث ایس ایم ایس کے لیے بھی 160 حروف کی حد مقرر کی گئی تھی۔
تصویر: DW
ٹیلیفون کمپنیوں کی چاندی
1990ء کے وسط میں، ایس ایم ایس تیزی سے مقبول ہوا اور اس کے ساتھ، ٹیلی فون کمپنیوں نے بڑا منافع حاصل کیا۔ 1996ء میں جرمنی میں 10 ملین ایس ایم ایس بھیجے گئے تھے۔ 2012 میں، ان کی تعداد 59 ارب تک پہنچ گئی۔ جرمنی میں، ایس ایم ایس بھیجنے کے 39 سینٹ تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Kaiser
اسمارٹ فونز
اسمارٹ فون مارکیٹ میں آنے کے بعد، ایس ایم ایس نے کی مقبولیت میں کمی ہونے لگی۔ ایسا 2009 میں شروع ہوا۔ ٹوئیٹر، فیس بک، زوم، واٹس ایپ جیسے مفت پیغامات بھیجنے والی ایپلیکیشنز زیادہ سے زیادہ مقبول ہو رہی ہیں۔ مگر اس سب کے باجود ایس ایم ایس کا وجود اب بھی قائم ہے۔
تصویر: Fotolia/bloomua
اعتماد کا رابطہ
ایس ایم ایس ابھی بھی جرمنی میں مقبول ہے۔ وفاقی مواصلات ایجنسی کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2016ء کے دوران 12.7 بلین ایس ایم ایس پیغامات موبائل فونز سے بھیجے گئے۔ جرمنی میں اب بھی میل باکس کے پیغامات اور آن لائن بینکنگ سے متعلق بہت سے اہم کوڈ ایس ایم ایس کے ذریعہ ہی بھیجے جاتے ہیں۔
تصویر: Fotolia/Aaron Amat
6 تصاویر1 | 6
فرانس میں نیوز میڈیا کے منافع میں نو فیصد کمی واقع ہوئی ہے اور اسے ایک بڑی مشکل صورت حال سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یورپی یونین کے ممبران کو یہ احساس بھی ہے کہ اگر فیس بک، گوگل اور ٹویٹر پر نیوز ایجنسیوں کے مطالبے کے تناظر میں کوئی پابندی عائد کی گئی تو یہ انٹرنیٹ تک آزادانہ رسائی کے بنیادی اصول کی منافی ہو گا۔
خبر رساں اداروں نے یورپی یونین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس صورت حال میں پیدا عدم توازن کی صورت حال پر خصوصی توجہ مرکوز کر کے کوئی مناسب اقدام کرے۔