1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انٹرنیٹ سنسر شپ، پاکستان کی کینیڈا سے مدد طلب

افسر اعوان18 ستمبر 2013

اسلام آباد کی ایک عمارت میں انٹرنیٹ ماہرین کی ایک ٹیم انٹرنیٹ کی تفصیلات جمع کرنے میں مصروف ہے۔ یہ ماہرین دراصل ایسے ہزاروں انٹرنیٹ صفحات بلاک کرنے کا کام کر رہی ہے جن پر ’قابل اعتراض‘ مواد موجود ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa

تاہم یہ ٹیم اس کام کرنے میں اس قدر مستعدی نہیں دکھا پا رہی جس کی ضرورت ہے، یہی وجہ ہے کہ حکومت اب کینیڈا کے تیار کردہ ایک سافٹ ویئر کا تجربہ کر رہی ہے جو ایک سیکنڈ میں لاکھوں ویب سائٹس بلاک کر سکتا ہے۔

بلاک کی جانے والی اکثر ایسی ویب سائٹس ہیں جن پر ایسی فلمیں یا کارٹون موجود ہیں جو مسلمانوں کے لیے اشتعال انگیز ہیںتصویر: AP

ایک پاکستانی انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی کمپنی کے ایک اہلکار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ گزشتہ پانچ برس کے دوران ایسے انٹرنیٹ صفحات کی تعداد دو گنا ہو چکی ہے جن تک پاکستان میں رسائی بلاک کر دی گئی ہے۔ ان میں اکثر ایسی ویب سائٹس ہیں جن پر ایسی فلمیں یا کارٹون موجود ہیں جو مسلمانوں کے لیے اشتعال انگیز ہیں۔

کینیڈا کی ٹورنٹو یونیورسٹی میں قائم سٹیزن لیب کی طرف سے رواں برس جون میں ایک رپورٹ شائع کی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ پاکستانی حکومت ویب سائٹس پر موجود مواد کو جانچ کر بلاک کرنے والے یا فلٹرنگ سافٹ ویئر کو تجرباتی طور پر استعمال کر رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ سافٹ ویئر کینیڈا کی کمپنی نیٹ سویپر کا تیار کردہ ہے۔ تاہم پاکستانی حکومت اور نیٹ سویپر کی طرف سے اس رپورٹ پر ردعمل دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔

پاکستانی حکومت کی طرف سے فلٹرنگ سافٹ ویئر کی تلاش کے لیے 2012ء میں پانچ صفحات پر مشتمل ایک دستاویز جاری کی گئی تھی۔ روئٹرز کے مطابق اس دستاویز میں کہا گیا تھا، ’’پاکستانی انٹرنیٹ سروس پروائیڈرز اور دیگر سہولیات فراہم کرنے والے اداروں نے لاکھوں قابل اعتراض ویب سائٹس کو موجودہ مینوئل بلاکنگ سسٹم کے ذریعے بلاک کرنے کی عدم قابلیت کا اظہار کیا ہے۔‘‘ اس دستاویز میں مزید کہا گیا کہ اسے ایک ایسے سسٹم کی ضرورت ہے جو 50 ملین ویب سائٹ ایڈریسز کو بلاک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔‘‘

انٹرنیٹ سروس پروائیڈر ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق 4500 ویب سائٹس پر پابندی عائد کی گئی ہےتصویر: AP

روئٹرز کے مطابق پاکستانی حکومت کی طرف سے تو کوئی اعداد وشمار جاری نہیں کیے گئے تاہم انٹرنیٹ سروس پروائیڈر ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق 4500 ویب سائٹس پر پابندی عائد کی گئی ہے جس میں یو ٹیوب بھی شامل ہے۔

پاکستانی حکام نے امید ظاہر کی ہے کہ انٹرنیٹ فلٹرنگ سافٹ ویئرز کے ذریعے انہیں امید ہے کہ وہ مخصوص مٹیریل کے لنکس کو بلاک کر سکیں گے جس سے پاکستان میں یوٹیوب کھولنے کی راہ ہموار ہو گی۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں