انٹر سیکس افراد کو پیدائش ہی سے شناخت دی جائے، جرمن عدالت
صائمہ حیدر
8 نومبر 2017
جرمنی کی اعلی ترین عدالت نے ملکی پارلیمان سے کہا ہے کہ مردانہ اور زنانہ دونوں صفات کےحامل افراد کی شناخت قانونی طور پر پیدائش ہی سے کی جائے۔
اشتہار
اس اقدام کے بعد جرمنی ممکنہ طور پر بین الصنفی افراد کو قانونی طور پر تیسری جنس کے طور پر شناخت دینے والا پہلا یورپی ملک بن جائے گا۔ جرمنی کی وفاقی آئینی عدالت نے آج بروز بدھ ایک حکم نامے میں کہا ہے کہ انٹر سیکس افراد کے حوالے سے موجودہ سول قوانین اور ضوابط امتیازی ہیں۔
عدالت نے یہ حکم نامہ ایک انٹر سیکس شخص کی جانب سے دائر کردہ درخواست کا فیصلہ سناتے ہوئے جاری کیا۔ فیصلے کی رُو سے ملکی قانون سازوں کو سن 2018 کے اختتام تک پیدائش کے رجسٹروں میں تیسری صنف کے لیے اندراج کا خانہ بنانے کا قانون لازمی طور پر منظور ہو جانا چاہیے۔
درخواست گزار بین الصنفی شخص کو خاتون کی حیثیت سے رجسٹر کیا گیا تھا لیکن کروموسوم کے تجزیے سے پتہ چلا کہ وہ مرد اور عورت دونوں کی صفات کا حامل فرد تھا۔
مردوں اور خواتین دونوں ہی کی جنسی خصوصیات کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کو بین صنفی کہا جاتا ہے۔ بین صنفی بچے بعض اوقات مرد اور عورت دونوں کے جنسی اعضاء کی ساخت کے مرکب کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں تاہم نہ تو وہ واضح طور پر لڑکا اور نہ ہی لڑکی نظر آتے ہیں۔
بھارت، آسٹریلیا،نیوزی لینڈ اور نیپال میں انٹر سیکس افراد کی شناخت سرکاری دستاویزات میں بین الصنفی افراد کے طور پر ہی کی جاتی ہے۔
حسین ترین خواجہ سرا، اسرائیل میں انوکھا مقابلہ
اسرائیل میں گیارہ خواجہ سراؤں نے اپنے خلاف نسلی امتیاز کو نمایاں کرنے اور ملکہٴ حسن کے تاج کے لیے اپنی نوعیت کے پہلے مقابلہٴ حسن میں حصہ لیا۔ عرب مسیحی تالین ابو شانا کو ملک کا حسین ترین خواجہ سرا منتخب کر لیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Balilty
ان میں سے ہر ایک ملکہٴ حسن ہے
یہ مقابلہ تل ابیب میں اسرائیلی نیشنل تھیٹر میں ہوا۔ ملکہٴ حسن کا تاج تالین ابو شانا کے سر پر سجا، جس نے اپنے تاثرات میں کہا:’’یہ تاج اتنا اہم نہیں ہے۔ ہمیں کسی کی ضرورت نہیں، جو ہمیں یہ بتائے کہ کون زیادہ حسین ہے، ہم میں سے ہر ایک ملکہٴ حسن ہے۔‘‘ اس فاتح خواجہ سرا کو تھائی لینڈ میں زیادہ خوبصورت بننے کے آپریشنز کے لیے تقریباً ساڑھے تیرہ ہزار یورو کے برابر رقم ملے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Sultan
بین الاقوامی اسٹیج پر
تالین ابوشانا کا تعلق الناصرہ سے ہے۔ وہ مسیحی ہے اور اس کا تعلق ایک عرب خاندان سے ہے۔ یوں خواجہ سرا کے طور پر اُسے دوہرے امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ اکیس سالہ بیلے رقاصہ تالین اب اسپین کے شہر بارسلونا میں ’مِس ٹرانس سٹار‘ کے نام سے ہونے والے خواجہ سراؤں کے بین الاقوامی مقابلہٴ حسن میں شرکت کرے گی۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/L. Chiesa
تبدیلی کے لیے کوشاں خواتین
یہ مقابلہٴ حسن تل ابیب میں خواجہ سراؤں، ہم جنس پرست مردوں اور ہم جنس پرست عورتوں کے سالانہ جشن کا نقطہٴ آغاز تھا۔ یہ اسرائیلی شہر اس طرح کے مرد و زن اور مخنث افراد کے ایک گڑھ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سال کی تقریبات کو ’ویمن فار اے چینج‘ یعنی ’تبدیلی کے لیے کوشاں خواتین‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/L. Chiesa
مختلف جنسی میلانات کے حامل افراد حقوق کے طالب
’مِس ٹرانس‘ نامی اس مقابلہٴ حسن کی داغ بیل اسرائیلا اسٹیفانی لیو نے ڈالی ہے۔ وہ خود بھی ایک خواجہ سرا ہے اور اُسے امید ہے کہ اس مقابلے کے ذریعے لوگ خواجہ سراؤں اور مختلف جنسی میلانات کے حامل افراد کے حالات کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکیں گے:’’ہم مساوی حقوق کے حامل افراد کے درمیان مساوی حقوق چاہتے ہیں‘‘۔ انعامات تقسیم ہونے لگے تو لیو نے چِلاّ کر کہا:’’یہ خواجہ سرا کمیونٹی کی آزادی ہے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/Abir Sultan
مختصر ملبوسات، طویل داستانیں
اس شام کے مقابلے میں شریک خواجہ سرا ایک طویل سفر طے کر کے یہاں تک پہنچے ہیں۔ یہ سب پہلے لڑکے تھے لیکن چونکہ اُن کے میلانات مختلف تھے، اس لیے انہوں نے تبدیلیٴ جنس کا آپریشن کروا لیا۔ اسرائیل ہی نہیں بلکہ دنیا میں ہر جگہ خواجہ سرا کمیونٹی کے ارکان کو نفرت اور امتیازی سلوک کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/L. Chiesa
بڑے شہر میں آ کر پناہ لی
اس تصویر میں آئلین بن زیکن میک اپ کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ اُسے ’مِس فوٹوجینک‘ کے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ اُس کا تعلق یروشلم کے ایک انتہائی قدامت پسند گھرانے سے ہے۔ بیکری مصنوعات کی ماہر آئلین بتاتی ہے کہ کیسے اُس کے پاس پڑوس کے لوگ اُسے حقارت سے دیکھا کرتے تھے:’’مجھے بار بار گالیاں دی جاتی تھیں، حتیٰ کہ میں تنگ آ کر تل ابیب آ گئی۔‘‘ اب وہ صرف اپنی ماں کے ساتھ رابطے میں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Lemel
گھر والوں کی بھی نفرت کا نشانہ
اس مقابلے میں شریک دیگر خواجہ سراؤں کی کہانی بھی مختلف نہیں ہے۔ زیادہ تر خواجہ سراؤں کے گھر والے پہلے اُن کے اپنی اصل شناخت کے سفر کو اور پھر اُن کے تبدیلیٴ جنس کے آپریشنز کو رَد کرتے ہیں۔ ان میں سے متعدد ایسے ہیں، جن کا اپنے گھر والوں کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Abir Sultan
دانشمندی کا راستہ
آیا اس مقابلے سے خواجہ سراؤں کی جانب لوگوں کی سوچ میں کوئی تبدیلی آئے گی، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ اسرائیلی اخبار ’ہاریٹس‘ لکھتا ہے:’’ایک ایسی حقیقی صورتِ حال میں، جہاں خواجہ سرا کمیونٹی کی یہ خواتین معاشرے میں اپنے جائز حقوق کے لیے لڑ رہی ہیں، مِس ٹرانس 2016ء کا مقابلہ دانشمندی کے راستے کی نشاندہی کرتا ہے۔‘‘