انچیون ایشین گیمز: پاکستان نے کیا کھویا کیا پایا
6 اکتوبر 2014ہاکی ٹیم کی بے مثال کامیابیوں کی وجہ سے اولمپکس کی طرح ایشین گیمز کو پاکستانیوں کی اکثریت محض ایک ہاکی ٹورنامنٹ ہی خیال کرتی ہے۔ تاہم روایتی حریف بھارت کے ہاتھوں 1966کے بعد پہلی بار ایشین گیمز فائنل میں پاکستان ہاکی ٹیم کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستانی کپتان محمد عمران کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم کی تیاری نہ ہونے کے برابر تھی اس لیے ٹیم کا وکٹری اسٹینڈ پر آنا کسی کارنامے سے کم نہیں۔
وطن واپسی پر ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے عمران کا کہنا تھا کہ پاکستانی ٹیم نے فائنل میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر قمست کی دیوی ان پرمہربان نہ تھی۔ محمد عمران کہتے ہیں کہ ٹیم نے وکٹری اسٹینڈ پر پہنچ کر ہاکی ناقدین کے اندازے غلط ثابت کر دیے جو کہہ رہے تھے کہ پاکستان چوتھے نمبر کی ٹیم ہے۔
ایشین گیمز ٹائٹل سے ہاتھ دھونے کے بعد پاکستان ہاکی ٹیم دو ہزار سولہ کے برزایل اولمپکس کے لیے بھی براہ راست کوالیفائی نہ کرسکی مگر محمد عمران نے دعویٰ کیا کہ پاکستان ہاکی اب پٹری پر واپس آچکی ہے۔
ایشین گیمز میں پاکستان کو سب سے حیران کن شکست کبڈی کے میدان میں ہوئی۔ پاکستان اور بھارت دنیا میں کبڈی کے سب سے بڑے حریف سمجھے جاتے ہیں مگر ایشین اسٹائل کبڈی میں پاکستان کا سیمی فائنل میں ایران سے ہارنا کسی کو ہضم نہیں ہو رہا۔
پاکستان کبڈی ٹیم کے سابق کھلاڑی اور پنجاب کبڈی ایسو سی ایشن کے سیکرٹری پروفیسرظفر کہتے ہیں کہ کبڈی کا گولڈ میڈل اقرباء پروری اور ملی بھگت کی بھینٹ چڑھ گیا۔ انہوں نے کہا کہ سیکرٹری کبڈی فیڈریشن نے سفارشی کھلاڑیوں اورآفیشلز کوانچیون بھجوایا،’’نیوی کے ایک چالیس سالہ کھلاڑی واجد علی کو ٹیم میں شامل کرکے میرٹ کا قتل عام کیا گیا۔ واجد علی نے گز شتہ آٹھ سال سے ایک پوائنٹ اسکور نہیں کیا مگر وہ پھر بھی کھیل رہا ہے۔‘‘
پروفیسر ظفرنے الزام لگایا کہ ایران کے خلاف میچ سراسر نورا کشتی تھا اور ایشین فیڈریشن میں عہدے لینے کے لیے ملک کی عزت کو خاک میں ملا دیا گیا۔ سلیکشن میں گڑبڑ صرف کبڈی تک محدود نہ تھی بلکہ ٹیبل ٹینس فیڈریشن نے دو ہاتھ آگے بڑھ کر ایک پچاس سالہ کھلاڑی کو ٹیم میں جگہ دی۔
ایشین گیمز میں اپنے اعزاز کا دفاع کرنے والی پاکستان سکواش ٹیم کو بھی اپ سیٹ شکست ہوئی اور وہ سیمی فائنل میں بھی جگہ نہ بنا سکی۔ ازبک باکسر شکیب الدین کے ہاتھوں محمد وسیم کی سیمی فائنل میں ناکامی نے باکسنگ میں بھی پاکستان کو کانسی کے تمغے تک محدود رکھا۔
انچیون گیمز میں تین سو رکنی پاکستانی دستے کی لاج پاکستانی خواتین کرکٹ ٹیم نے طلائی تمغہ جیت کر رکھی جس کی تیاری میں پاکستان اسپورٹس بورڈ یا پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کا کوئی عمل دخل نہ تھا۔ خواتین کرکٹ ٹیم کی آل راونڈر مرینہ اقبال نے اس طلائی تمغہ کو پاکستانی خواتین کرکٹ کے تابناک مستقبل کا نقیب قرار دیا۔
دیگر کھیلوں میں پاکستانی کھلاڑیوں کی کارکردگی ’آئے رام گئے رام‘ کے مصداق انتہائی مایوس کن رہی۔ اب اس ناکامی پر روایتی بہانے تراشنے کا کام شروع ہے۔ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے ایگزیکٹیو رکن خاور شاہ انچیون میں سبکی کو غیر یقینی ملکی حالات سے منسوب کرتے ہیں۔ خاور شاہ کہتے ہیں کہ دہشت گردی نے کھیلوں کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے جب پاکستان خوشحال ہوگا تو میڈلز بھی زیادہ آئیں گے۔
1954میں پہلی بار ایشین گیمز میں شریک ہونے پر پاکستان تمغوں کی ایشیائی دوڑ میں چوتھے نمبر پر رہا تھا ۔ 1990 تک نمبرچھٹا رہا مگر پھر گنگا الٹی بہنا شروع ہوئی اور تنزلی 2010ء تک اسے میڈل ٹیلی میں بیسویں اور 2014ء میں تیسویں نمبر پر لے آئی لیکن ہمیشہ کی طرح اس سے آج بھی سرکار کو کوئی سروکار نہیں۔