انڈونيشيا ميں عورتوں کو جہاد کے ليے کيسے تيار کيا جاتا ہے؟
عاصم سلیم Ayu Purwaningsih, Srinivas Mazumdaru
15 مئی 2018
انڈونيشيا ميں چند حاليہ دہشت گردانہ حملے بچوں، عورتوں و مردوں پر مشتمل پورے پورے خاندانوں نے کيے، جن کے بعد اس ملک ميں سرگرم جنگجو نيٹ ورکس ميں عورتوں کی شموليت پر گہری تشويش ظاہر کی جا رہی ہے۔
اشتہار
انڈونيشيا ميں گزشتہ چند دنوں ميں خودکش بم دھماکوں ميں بيس سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہيں۔ حملوں کی سب سے پريشان کن بات يہ ہے کہ يہ ايسے خاندانوں کی جانب سے کيے گئے، جن ميں عورتيں اور بچے بھی شامل تھے۔ مثال کے طور پر ايک گرجا گھر پر کيے گئے حملے ميں ايک ہی اہل خانہ کے چھ ارکان ملوث تھے جن ميں والدين کے علاوہ نو اور بارہ سال کی دو بيٹياں اور دو ٹين ايجر بيٹے ملوث پائے گئے۔
پوليس کے مطابق ان تمام کا تعلق مقامی انتہا پسند گروہ جامعہ انشارت دولہ (JAD) سے تھا۔ يہ گروہ دہشت گرد تنظيم اسلامک اسٹيٹ سے روابط رکھتا ہے۔ انڈونيشيا کے پوليس چيف ٹيٹو کارناويان کے بقول حملہ آوروں نے کارروائی اسلامک اسٹيٹ يا داعش کے احکامات پر کی۔ ان کے بقول سورابايا اور سيڈو آرجو ميں ان دو مختلف حملوں کا ايک دوسرے سے تعلق ہے اور اس پيشرفت پر پوليس تشويش کا شکار ہے۔
عورتوں کا خود کش حملہ آور ہونا انڈونيشيا ميں کوئی نئی بات نہيں ليکن يہ پہلا موقع تھا جب ان کی جانب سے باقاعدہ حملے کيے گئے۔ پچھلے سال پوليس نے مغربی جاوا کی ايک خاتون ديان يوليا نوی کو حراست ميں لے ليا تھا، جو جکارتہ ميں صدارتی محل پر حملہ کرنے کی کوشش ميں تھی۔ نوی کو بعد ازاں حراست ميں لے ليا گيا تھا اور سات سال کی سزا ہو چکی ہے۔ حاليہ ايام ميں دو ايسی خواتين کو بھی حراست ميں ليا گيا، جنہوں نے پوليس والوں پر حملے کيے۔ چند ماہرين کا ايسا ماننا ہے کہ عالمی سطح پر دہشت گرد تنظيموں کے لائحہ عمل ميں تبديلی آ رہی ہے۔ اب وہ حملوں کے ليے عورتوں کو بھی استعمال کر رہے ہيں۔
سعودی کنگ فہد يونيورسٹی سے منسلک پروفيسر سمانتو القرتبی کے مطابق اسلامک اسٹيٹ جيسی تنظيميں اکثر عورتوں کو خود کش حملوں کے ليے استعمال کرتی ہيں کيونکہ ان کی شناخت ميں حکام کو مشکل پيش آتی ہے۔ ’’عورتيں بموں کو اپنے پيٹ سے باندھ کر انہيں لمبے کپڑے پہن کر چھپا ليتی ہيں۔‘‘
انسداد دہشت گردی پر ريسرچ کرنے والی ايک محققہ رکيان اديبراتا نے کہا کہ کئی لوگ انڈونيشيا ميں ان تازہ حملوں ميں بچوں کو استعمال کيے جانے پر حيران زدہ ہيں تاہم داعش جيسے گروپ کافی عرصے سے يہ طرز عمل اپنائے ہوئے ہيں۔ انہوں نے کہا کہ والدين اپنے بچوں کے ذہن کو صاف کر کے ان ميں ايسے خيالات ڈالتے ہيں۔
غير سرکاری تنظيم گارڈين نيشنل نيٹ ورک سے وابستہ کاليس ماردياسے کا کہنا ہے کہ حملہ آور واردات کے وقت ’جنت کا خواب‘ ديکھ رہے تھے۔
ماہرين کے مطابق خواتين کی جانب سے ايسی پرتشدد کارروائيوں و وارداتوں ميں ملوث ہونے کی ايک وجہ سوشل ميڈيا بھی ہے، جہاں متعدد پليٹ فارمز پر انتہا پسند موقف کی تائيد کی جاتی ہے۔
دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ دس ممالک
سن 2017 کے ’گلوبل ٹیررازم انڈیکس‘ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 59 فیصد کم رہی۔ اس انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کےشکار ممالک یہ رہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
عراق
عراق دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست میں گزشتہ مسلسل تیرہ برس سے سر فہرست ہے۔ رواں برس کے گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس عراق میں دہشت گردی کے قریب تین ہزار واقعات پیش آئے جن میں قریب 10 ہزار افراد ہلاک جب کہ 13 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گرد تنظیم داعش نے سب سے زیادہ دہشت گردانہ کارروائیاں کیں۔ عراق کا جی ٹی آئی اسکور دس رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP
افغانستان
افغانستان اس فہرست میں دوسرے نمبر پر رہا جہاں قریب ساڑھے تیرہ سو دہشت گردانہ حملوں میں ساڑھے چار ہزار سے زائد انسان ہلاک جب کہ پانچ ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ افغانستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد، اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں چودہ فیصد کم رہی۔ زیادہ تر حملے طالبان نے کیے جن میں پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.44 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
نائجیریا
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں جی ٹی آئی اسکور 9.00 کے ساتھ نائجیریا تیسرے نمبر پر ہے۔ اس افریقی ملک میں 466 دہشت گردانہ حملوں میں اٹھارہ سو سے زائد افراد ہلاک اور ایک ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔ سن 2014 میں ایسے حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زائد رہی تھی۔
تصویر: Reuters/Stringer
شام
جی ٹی آئی انڈیکس کے مطابق خانہ جنگی کا شکار ملک شام دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ شام میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں زیادہ تر داعش اور النصرہ کے شدت پسند ملوث تھے۔ شام میں سن 2016 میں دہشت گردی کے 366 واقعات رونما ہوئے جن میں اکیس سو انسان ہلاک جب کہ ڈھائی ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 8.6 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP
پاکستان
پاکستان اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جہاں گزشتہ برس 736 دہشت گردانہ واقعات میں ساڑھے نو سو افراد ہلاک اور سترہ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں تحریک طالبان پاکستان، داعش کی خراسان شاخ اور لشکر جھنگوی نے کیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 59 فیصد کم رہی جس کی ایک اہم وجہ دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب نامی فوجی آپریشن بنا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
یمن
یمن میں متحارب گروہوں اور سعودی قیادت میں حوثیوں کے خلاف جاری جنگ کے علاوہ اس ملک کو دہشت گردانہ حملوں کا بھی سامنا ہے۔ مجموعی طور پر دہشت گردی کے 366 واقعات میں قریب ساڑھے چھ سو افراد ہلاک ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں حوثی شدت پسندوں کے علاوہ القاعدہ کی ایک شاخ کے دہشت گرد ملوث تھے۔
تصویر: Reuters/F. Salman
صومالیہ
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں صومالیہ ساتویں نمبر پر رہا جہاں الشباب تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے نوے فیصد سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ الشباب کے شدت پسندوں نے سب سے زیادہ ہلاکت خیز حملوں میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 7.6 رہا۔
تصویر: picture alliance/dpa/AAS. Mohamed
بھارت
جنوبی ایشیائی ملک بھارت بھی اس فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے جہاں دہشت گردی کے نو سو سے زائد واقعات میں 340 افراد ہلاک جب کہ چھ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ تعداد سن 2015 کے مقابلے میں اٹھارہ فیصد زیادہ ہے۔ انڈیکس کے مطابق بھارت کے مشرقی حصے میں ہونے والی زیادہ تر دہشت گردانہ کارروائیاں ماؤ نواز باغیوں نے کیں۔ 2016ء میں لشکر طیبہ کے دہشت گردانہ حملوں میں پانچ بھارتی شہری ہلاک ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam
ترکی
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں ترکی پہلی مرتبہ پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ ترکی میں 364 دہشت گردانہ حملوں میں ساڑھے چھ سو سے زائد افراد ہلاک اور قریب تئیس سو زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری پی کے کے اور ٹی اے کے نامی کرد شدت پسند تنظیموں نے قبول کی جب کہ داعش بھی ترک سرزمین پر دہشت گردانہ حملے کیے۔
تصویر: Reuters/Y. Karahan
لیبیا
لیبیا میں معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ ملک تیزی سے دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس لیبیا میں 333 دہشت گردانہ حملوں میں پونے چار سو افراد ہلاک ہوئے۔ لیبیا میں بھی دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے منسلک مختلف گروہوں نے کیں۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں لیبیا کا اسکور 7.2 رہا۔