انڈونیشیا: آچے میں جہاز کے خواتین عملے پر حجاب کرنا لازم
صائمہ حیدر
1 فروری 2018
انڈونیشیا کے صوبے آچے میں حکام کے مطابق انتظامیہ نے ہوائی جہازوں پر خواتین کے عملے کے لیے دوران پرواز اور لینڈنگ کے بعد بھی اسکارف پہننے کا حکم دیا ہے۔ آچے میں شرعی قوانین نافذ ہیں۔
اشتہار
آچے مسلم اکثریت والے ملک انڈونیشیا کا واحد صوبہ ہے جہاں شرعی قوانین نافذ ہیں۔ باقی ملک میں مذہب اسلام کی معتدل شکل پر عمل ہوتا ہے اور خواتین حجاب کرنے یا نہ کرنے میں آزاد ہیں۔
آچے کی علاقائی حکومت کو مرکزی حکومت نے سن 2001 کی ایک امن ڈیل کے تحت زیادہ خود مختاری دے رکھی ہے۔ صوبائی انتظامیہ کی جانب سے قومی ایئر لائن ’ گارودا انڈونیشیا‘ اور ایر ایشیا جیسی بجٹ ایر لائنوں کو خواتین ایر ہوسٹسوں کے حجاب سے متعلق خط تحریر کر دیا گیا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے ،’’ تمام خواتین اسٹیورڈز پر لازم ہے کہ وہ اسلامی شرعی قوانین کے مطابق حجاب کریں۔‘‘
آچے کے صوبائی دارالحکومت باندہ آچے میں واقع بین الاقوامی ایئر پورٹ پر ہر ہفتے درجنوں مقامی اور بین الاقوامی پروازیں آتی جاتی ہیں۔ مقامی انتظامی سربراہ موردی علی کے مطابق غیر مسلم خواتین عملے پر حجاب کی پابندی نہیں لیکن مسلمان ایر ہوسٹسوں کو دوران پرواز اور آچے سے باہر آتے جاتے حجاب کرنا ہو گا۔
ملائیشیا کی ہوائی کمپنی ایر ایشیا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ آچے کی جانب سے لاگو کیے اس قانون پر عمل کو یقینی بنائے گی اور فی الحال آچے کے لیے پروازوں میں صرف مرد حضرات عملے میں شامل کیے جائیں گے۔
انڈونیشیا کے مغرب میں واقع آچے کو ایک انتہائی مذہبی صوبہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی زیادہ تر آبادی مسلمان ہے۔ آچے میں جوئے، شراب نوشی، جسم فروشی اور ہم جنس پرستی کی ممانعت ہے اور خلاف ورزی کرنے والے کو سرعام شرعی پولیس کی جانب سے کوڑے مارے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں خواتین کے لیے حجاب پہننا بھی لازمی ہے۔
جکارتہ میں دیوار برلن
جرمن دارالحکومت برلن سے قریب 11 ہزار کلومیٹر دور جکارتہ کے ایک پارک میں دیوار برلن کے کچھ حصے رکھے گئے ہیں۔ لیکن سرد جنگ کے دور کی نظریاتی تقسیم کی اس علامت کا انڈونیشیا کے ساتھ کیا لینا دینا ہے؟
تصویر: Privat
سرحدوں سے ماورا
ٹیگوہ آسٹینرک کو ’’اسکلپچر بیونڈ باؤنڈریز‘‘ یا سرحدوں سے ماورا سنگ تراشی نامی اپنے آرٹ ورک کے لیے مناسب جگہ تلاش کرنے میں 27 برس کا طویل انتظار کرنا پڑا۔ انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والے اس پینٹر نے اپنے اس پراجیکٹ کی نمائش کے لیے جکارتہ کے کالیجوڈو پبلک پارک کو منتخب کیا۔
تصویر: Privat
تاریخ کے حصے کی انڈونیشیا آمد
آسٹینرک 1988ء میں انڈونیشیا واپس لوٹنے سے قبل 10 برس تک برلن کے مغربی حصے میں رہائش پذیر رہے تھے۔ جرمن کے اتحاد کے دو ہفتے بعد وہ دوبارہ جرمنی گئے تاکہ تاریخ کے ایک حصے کو خرید سکیں۔ انہوں نے دیوار برلن کے چار حصے خریدے اور انہیں 1990ء میں جکارتہ لے آئے۔
تصویر: Gino Franki Hadi
غیر مرئی دیواریں
جب آسٹینرک برلن میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد انڈونیشیا واپس آئے تو انہوں نے محسوس کیا کہ ان کا ملک نسلی اور مذہبی حوالوں سے تقسیم کا شکار ہے۔ انڈونیشیا کے قبائل کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے آسٹینرک کا کہنا تھا، ’’ہمارے ملک میں جیوانی اور سوڈانی لوگوں کے درمیان ایک غیر مرئی دیوار ہے۔ باتاک لوگوں کے لیے بھی ’دیوار برلن‘ موجود ہے۔‘‘
تصویر: Privat
الفاظ اور تصاویر کا امتزاج
آسٹینرک نے آرٹس کی تعلیم جرمنی سے حاصل کی۔ 1980ء کی دہائی میں برلن میں اپنی رہائش کے دوران وہ دیوار برلن پر اکثر گرافٹی بنایا کرتے تھے۔ جرمنی سے انڈونیشیا لائے گئے دیوار برلن کے ان چار بڑے حصوں پر الفاظ اور تصاویر کا ایک خوشگوار امتزاج موجود ہے اور یہ بچوں کے اس پارک کے حوالے سے بالکل موزوں رکھتا ہے۔
تصویر: Privat
انسانی روح
برلن میں موجود اصل دیوار کی شکل میں ان حصوں کو جوڑنے کی بجائے آسٹینرک نے ان کے ارد گرد اسٹیل کے 14 مجسمے رکھے ہیں۔ یہ مجسمے ایک آئرن مین یا لوہے سے بنے ایک شخص کی نمائندگی کرتے ہیں، جو اس آرٹسٹ کے مطابق ایک انسانی روح کی طرح ہے۔ آسٹینرک کے مطابق، ’’انسانی روح اسی قدر مضبوط ہے جتنا لوہا اور ہم اپنے درمیان موجود اس دیوار کو گرا سکتے ہیں جو تقسیم کرتی ہے۔‘‘
تصویر: Privat
دیوار برلن گرائے جانے کے دن افتتاح
’’اسکلپچر بیونڈ باؤنڈریز‘‘ کا افتتاح رواں برس تین اکتوبر کو کیا گیا تھا۔ یہ وہی تاریخ تھی جب دیوار برلن گرائی گئی تھی۔