انڈونیشیا: اسلامک گروہ سے ملنے پر جرمن سفارتکار کی وطن واپسی
21 دسمبر 2020
انڈونیشیا میں جرمن سفارتخانے کی ایک خاتون اہلکار کی جانب سے متنازعہ اسلامک ڈفینڈر فرنٹ (ایف پی آئی) کے ہیڈکوارٹر کا دورہ کرنے پر برلن نے جکارتہ حکومت سے معذرت کرتے ہوئے اپنی سفارتکار کو جرمنی واپس بھیج دیا۔
اشتہار
انڈونیشیا کی وزارت خارجہ کی جانب سے جکارتہ میں جرمن سفارتخانے سے ان کے ایک عملے کی سخت گیر نظریات کی حامل تنظیم اسلامک ڈفینڈر فرنٹ (ایف پی آئی) کے ہیڈکوارٹر میں ملاقات کے سلسلے میں احتجاج کرتے ہوئے وضاحت طلب کی گئی۔
انڈونیشیا کی وزارت خارجہ کے اتوار اکیس دسمبر کو جاری کردہ ایک بیان کے مطابق جکارتہ میں جرمن سفارتخانے کے نمائندے نے اپنے عملے کی ایف پی آئی کے ساتھ ملاقات کی تصدیق کی تھی۔ اس بیان میں مزید بتایا گیا کہ جرمن سفارتخانے کی ایک خاتون اہلکار انفرادی حیثیت سے ایف پی آئی کے دفتر گئی تھی اور جرمن سفارتخانے کو اس بارے میں علم نہیں تھا۔
جرمن خاتون سفارتکار کی واپسی
جکارتہ میں جرمن سفارتخانے نے اٹھارہ دسمبر کو پیش آنے والے اس واقعے پر شدید افسوس کا اظہار کیا ہے۔ جرمن سفارتخانے نے ڈی ڈبلیو کو ایک بیان میں مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اس دورے کے پیچھے کوئی سیاسی مقاصد نہیں تھے بلکہ مذکورہ خاتون اہلکار مظاہرے کے دوران سکیورٹی کی صورت حال کا قریبی جائزہ لینا چاہتی تھی۔
انڈونیشیا میں حجاب کا مقامی کاروبار
03:50
دریں اثناء مذکورہ جرمن سفارتخانے کی خاتون اہلکار کو واپس جرمنی بھیج دیا گیا اور ان سے مزید وضاحت طلب کی جائے گی۔
ایف پی آئی نے ملاقات کو سیاسی رنگ دے دیا
انڈونیشیا کے مقامی میڈیا نے جمعرات سترہ دسمبر کو پیش آنے والے اس دورے کے بعد اطلاع دی تھی کہ ایف پی آئی کی اعلی شخصیات نے دعوی کیا ہے کہ ایک غیر ملکی سفارتکار کے ساتھ تیس منٹ کی ملاقات کی گئی ہے۔ اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا ان کی جانب توجہ دے رہی ہے۔
چند ہفتے قبل ہی جکارتہ کے مضافاتی علاقے میں اسلامک ڈیفینڈرز فرنٹ پارٹی (ایف پی آئی) کے سربراہ رزیق شہاب کے ساتھ سفر کرنے والے چھ افراد پولیس کے ساتھ ایک جھڑپ میں ہلاک ہوگئے تھے۔ پولیس کے مطابق ان افراد نے پولیس پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی اور وہ جوابی کارروائی میں مارے گئے تھے۔ لیکن ایف پی آئی پولیس پر ماورائے عدالت قتل کا الزام عائد کرتی ہے۔ نیز اس کارروائی کے نتیجے میں ایف پی آئی کے جانب سے مظاہرے بھی کیے جارہے تھے۔
ع آ / ک م (نیوز ایجنسیاں)
انڈونیشیا میں بیلوں کی دوڑ اور ثقافت
انڈونیشیا میں بھی صدیوں سے بیلوں کو کھیتی باڑی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن بالی اور جاوا کے جزائر پر انہیں روایتی دوڑوں کے مقابلوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ دیکھیے ان مقابلوں کی دلچسپ تصاویر!
تصویر: Claudio Sieber
سماٹرا کے جزیرے پر بیلوں کی دوڑ
جب چاول کی فصل کی کٹائی اپنے اختتام کو پہنچتی ہے تو مقامی کسان ’پاکو جوائی‘ نامی علاقے میں جمع ہو جاتے ہیں۔ یہاں بیلوں کی دوڑ کا مقابلہ منعقد کیا جاتا ہے اور کھیتوں کو ہی ریسنگ ٹریک کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
تصویر: Claudio Sieber
مقامی ہیرو
اس دوڑ کا تعلق نہ تو مذہب اور نہ ہی روحانیت سے ہے۔ ’جوکی‘ کہلانے والے مقامی کسانوں کا مقصد محض مقابلہ بازی اور تفریح ہوتا ہے۔ جیتنے والے کسان کو ’مقامی ہیرو‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔
تصویر: Claudio Sieber
ریسنگ اور کنٹرول
کسی بہادر ’جوکی‘ کو لچکدار چھڑی سے بنائی گئی ان دو باگوں کے علاوہ کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انہیں بیلوں کی ڈھیلی ڈھالی کاٹھی سے باندھ دیا جاتا ہے اور ان سے جڑے تختے پر کھلاڑی کھڑا ہو جاتا ہے۔ سہارے کے لیے بیل کی دم پکڑ لی جاتی ہے۔
تصویر: Claudio Sieber
بیلوں کو قریب قریب رکھنا
اس دوڑ میں فاتح قرار پانے کے لیے سب سے ضروری بات تیز رفتاری اور اپنی سمت کو سیدھا رکھنا ہوتی ہے۔ ان بیلوں کی رفتار تیس سے چالیس کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہو سکتی ہے۔ لیکن نہ تو کوئی اسٹاپ واچ ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی واضح قوانین، حتمی فیصلہ مقابلے کی انتظامی کمیٹی کرتی ہے۔
تصویر: Claudio Sieber
گارے میں لت پت
دوڑ کے دوران گرنا اور گارے میں لت پت ہو جانا اس کھیل کے لازمی حصے ہیں۔ انتہائی ماہر ’جوکی‘ کے لیے بھی بیلوں کی سمت کو سیدھا رکھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔
تصویر: Claudio Sieber
جیتنے والی جوڑی
انڈونیشیا کے ایسے کسان اپنے بیلوں کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ کئی انہیں خصوصی غذائیں حتیٰ کہ شہد تک بھی کھلانے کے دعوے کرتے ہیں۔ جیتنے والے کے لیے کوئی خاص انعام تو نہیں رکھا جاتا لیکن مقابلہ جیتنے والا بیل تقریباﹰ دگنی قیمت پر فروخت ہوتا ہے۔
تصویر: Claudio Sieber
بالی کے جزیرے پر بیل دوڑ
اس جزیرے پر چاول کی فصل کی کٹائی کے بعد ہر سال ’جیمبرانا کپ‘ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس ٹورنامنٹ کے مختلف مراحل ہوتے ہیں۔ حتمی مرحلے کا نام ’میکپنگ فائنل‘ ہے اور جتنے والے کسان کو دو لاکھ پاکستانی روپے کے برابر رقم دی جاتی ہے۔
تصویر: Claudio Sieber
’سجے سجائے‘ بیل
کسان اس میلے میں شرکت کے لیے اپنے بیلوں کو خوب اچھی طرح سجاتے ہیں۔ سب سے زیادہ زیور بیلوں کے سروں پر باندھنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔