بالی بم دھماکوں میں ملوث شدت پسند کو پندرہ برس قید
19 جنوری 2022
انڈونیشیا میں ہونے والے 2002ء کے ہلاکت خیز بالی بم دھماکوں میں ملوث ملزم کو دہشت گردی کے الزام میں اٹھارہ برس قید کی سنا دی گئی۔ اٹھارہ برس تک مفرور رہنے والے ذوالقرنین نامی شخص کو دسمبر 2020ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔
اٹھاون سالہ ملزم عارف سونارسو ذوالقرنین کے نام سے بھی جانا جاتا ہےتصویر: AP Photo/picture alliance
اشتہار
انڈونیشیا کی عدالت نے آج بدھ کے روز بالی بم دھماکوں میں ملوث ایک ملٹری کمانڈر کو پندرہ برس قید کی سزا سنائی ہے۔
اٹھاون سالہ ملزم عارس سمارسونو کا حقیقی نام عارف سونارسو ہے، جو ذوالقرنین کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ وہ جمیعہ اسلامیہ نامی تنظیم کے ایک خاص یونٹ کا سربراہ تھا۔ یہ گروہ دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے عسکریت پسند نظریات سے متاثر ہے اور اسی نے بالی دھماکوں کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔ اس حملے میں دو سو دو افراد کی موت ہو گئی تھی، جن کا تعلق اکیس ممالک سے تھا۔ بالی میں بارہ اکتوبر سن 2002 کو پیڈیز نامی آئرش بار اور ساری کلب کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
انڈونیشیا: ہم جنس پرستوں کو کوڑے مارنے کی سزائیں
03:12
This browser does not support the video element.
ملزم کا انکار جرم
ذوالقرنین نے انفرادی طور پر بم دھماکوں میں ملوث ہونے کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن اس نے یہ اعتراف ضرور کیا کہ یہ دھماکے اسی کی ٹیم نے کیے تھے۔ ملزم نے عدالت کو بتایا کہ وہ حملے کی منصوبہ بندی میں شامل نہیں تھا اور اسے اس کارروائی کا علم بھی نہیں تھا۔
جج ایلکس ایڈم فیصل نے ملزم کے انکار جرم کو مسترد کرتے ہوئے کہا، ''حقیقت یہ ہے کہ وہ اس ٹیم کا سربراہ تھا اور اس نے بالی منصوبے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔۔۔ جس کا مطلب اعتراف ہے۔‘‘
عدالت میں جج نے مزید کہا کہ مذکورہ شخص نے دہشت گردی کی ہے اور اسے پندرہ برس جیل میں قید کی سزا سنائی جارہی ہے۔
پلاسٹک کا کچرا جمع کر کے کتابیں حاصل کریں
انڈونیشی جزیرے جاوا میں ایک موبائل لائبریری کا منفرد پروگرام ہے۔ اس پروگرام کے تحت بچے پلاسٹک کا کوڑا لاتے ہیں لائبریری سے کتابیں حاصل کرتے ہیں۔ اس پروگرام کا مقصد ماحول دوستی کی ترغیب اور آگہی کو فروغ دینا ہے۔
تصویر: Ajeng Dinar Ulfiana/REUTERS
چھوٹی پیش رفت، بڑے اثرات
پورے ہفتے خاتون رادین رورو ہینڈراٹی اپنے تین پہیوں والی گاڑی پر کتابیں لاد کر ایک گاؤں منٹانگ جاتی ہیں۔ وہ گاؤں کے بچوں سے پلاسٹک کا کچرا وصول کرتی ہیں اور اس کے بدلے میں انہیں کتابیں دیتی ہیں۔ بظاہر یہ ایک چھوٹی سی پیش رفت ہے لیکن اس کا اثر بہت وسیع ہے کیونکہ بچوں کو ماحول کے بارے میں معلومات میسر ہو رہی ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ انڈونیشیا میں پلاسٹک کا کوڑا ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔
تصویر: Ajeng Dinar Ulfiana/REUTERS
پلاسٹک ایکسچینج
بہت سارے بچے ان کے انتطار میں بھی ہوتے ہیں۔ یہ قطار میں کھڑے ہو کر کتابیں وصول کرتے ہیں۔ بچے انہیں پلاسٹک کے کپس، تھیلے اور دوسرا کچرا جمع کرواتے ہیں۔ رادین اس کوڑے کو اپنے ٹرائی وہیلر پر رکھتی جاتی ہیں۔ وہ اس کوڑے کو واپس لا کر اپنے ساتھیوں کو دیتی ہیں، جو انہیں علیحدہ کر کے ری سائیکل یا فروخت کر دیتے ہیں۔
تصویر: Ajeng Dinar Ulfiana/REUTERS
پلاسٹک کا کچرا
رادین ایک ہفتے میں قریب ایک سو کلوگرام کچرا جمع کر لیتی ہیں۔ ان کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کو روکنے اور زمین کے بچانے کے لیے ایسا کوڑا جمع کرنا ضروری ہے۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر ٹریش لائبریری کے تحت جمع ہونے والے کاٹھ کباڑ کا وزن بھی کرتی ہیں۔
تصویر: Ajeng Dinar Ulfiana/REUTERS
مل جُل کر تلاش کا سلسلہ
رادین کے مطابق بچے ان کی چھوٹی سی موبائل لائبریری سے خاص لگاؤ رکھتے ہیں۔ انہوں نے بچوں پر واضح کیا کہ جب کوڑا زیادہ ہو گا تب گندگی پھیلے گی اور ماحول صحت مند نہیں رہے گا۔ انہوں نے بتایا کہ اسکول سے واپس لوٹ کر بھی یہ بچے اکھٹے بیٹھ کر ایک دوسرے کی کتابوں کو دیکھتے اور پڑھتے ہیں۔
تصویر: Ajeng Dinar Ulfiana/REUTERS
بچوں کی کتابیں، ویڈیو گیمز نہیں
رادین رورو ہینڈراٹی بچوں کو مطالعے کی جانب راغب کر کے بہت خوش ہیں۔ وہ اِن بچوں کے کتب بینی کے شوق کی حوصلہ افزائی بھی کرتی ہیں۔ اب اس شروعات پر گاؤں کے بچے ویڈیو گیمز کھیلنے پر کم وقت صرف کرتے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ پڑھنے کے کلچر کو فروغ دیا جائے کیونکہ آن لائن رویوں نے دنیا کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کووڈ انیس کی وبا کے دوران بچے ویڈیو گیمز کی جانب زیادہ مائل ہو گئے ہیں۔
تصویر: Ajeng Dinar Ulfiana/REUTERS
خواندگی بڑھانے کا مشن
کورونا وبا کے دوران انڈونیشیا میں بیشتر اسکول بند رہے اور اس کی شدید منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ رادین اپنے ملک میں پڑھنے کو پھر سے رواج دینے کی کوشش میں ہیں۔ وہ روزانہ ہزاروں کتابیں اپنی تین پہیوں والی گاڑی پر لاد کر تقسیم کرتی ہیں۔
تصویر: Ajeng Dinar Ulfiana/REUTERS
6 تصاویر1 | 6
متعدد اموات کا ذمہ دار
ذوالقرنین نامی ملزم اٹھارہ برس سے اس وقت تک مفرور رہا جب انسداد دہشت گردی نے اسے سن 2020 میں سماٹرا جزیرے پر لمپونگ میں حراست میں لیا۔
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن سے منسلک افراد کی پابندیوں کی فہرست میں ملزم کا نام بھی شامل تھا۔ امریکا نے اس کو پکڑنے پر پانچ ملین ڈالر کے انعام کا اعلان بھی کر رکھا تھا۔
ذوالقرنین کے بارے میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ جکارتہ کے میریئٹ ہوٹل میں ہونے والے سن 2003 کے دہشت گردانہ حملے میں بھی ملوث تھا۔ اس حملے میں بارہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ع آ / ع ا (اے ایف پی، روئٹرز)
انڈونیشیا میں بیلوں کی دوڑ اور ثقافت
انڈونیشیا میں بھی صدیوں سے بیلوں کو کھیتی باڑی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن بالی اور جاوا کے جزائر پر انہیں روایتی دوڑوں کے مقابلوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ دیکھیے ان مقابلوں کی دلچسپ تصاویر!
تصویر: Claudio Sieber
سماٹرا کے جزیرے پر بیلوں کی دوڑ
جب چاول کی فصل کی کٹائی اپنے اختتام کو پہنچتی ہے تو مقامی کسان ’پاکو جوائی‘ نامی علاقے میں جمع ہو جاتے ہیں۔ یہاں بیلوں کی دوڑ کا مقابلہ منعقد کیا جاتا ہے اور کھیتوں کو ہی ریسنگ ٹریک کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
تصویر: Claudio Sieber
مقامی ہیرو
اس دوڑ کا تعلق نہ تو مذہب اور نہ ہی روحانیت سے ہے۔ ’جوکی‘ کہلانے والے مقامی کسانوں کا مقصد محض مقابلہ بازی اور تفریح ہوتا ہے۔ جیتنے والے کسان کو ’مقامی ہیرو‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔
تصویر: Claudio Sieber
ریسنگ اور کنٹرول
کسی بہادر ’جوکی‘ کو لچکدار چھڑی سے بنائی گئی ان دو باگوں کے علاوہ کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انہیں بیلوں کی ڈھیلی ڈھالی کاٹھی سے باندھ دیا جاتا ہے اور ان سے جڑے تختے پر کھلاڑی کھڑا ہو جاتا ہے۔ سہارے کے لیے بیل کی دم پکڑ لی جاتی ہے۔
تصویر: Claudio Sieber
بیلوں کو قریب قریب رکھنا
اس دوڑ میں فاتح قرار پانے کے لیے سب سے ضروری بات تیز رفتاری اور اپنی سمت کو سیدھا رکھنا ہوتی ہے۔ ان بیلوں کی رفتار تیس سے چالیس کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہو سکتی ہے۔ لیکن نہ تو کوئی اسٹاپ واچ ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی واضح قوانین، حتمی فیصلہ مقابلے کی انتظامی کمیٹی کرتی ہے۔
تصویر: Claudio Sieber
گارے میں لت پت
دوڑ کے دوران گرنا اور گارے میں لت پت ہو جانا اس کھیل کے لازمی حصے ہیں۔ انتہائی ماہر ’جوکی‘ کے لیے بھی بیلوں کی سمت کو سیدھا رکھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔
تصویر: Claudio Sieber
جیتنے والی جوڑی
انڈونیشیا کے ایسے کسان اپنے بیلوں کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ کئی انہیں خصوصی غذائیں حتیٰ کہ شہد تک بھی کھلانے کے دعوے کرتے ہیں۔ جیتنے والے کے لیے کوئی خاص انعام تو نہیں رکھا جاتا لیکن مقابلہ جیتنے والا بیل تقریباﹰ دگنی قیمت پر فروخت ہوتا ہے۔
تصویر: Claudio Sieber
بالی کے جزیرے پر بیل دوڑ
اس جزیرے پر چاول کی فصل کی کٹائی کے بعد ہر سال ’جیمبرانا کپ‘ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس ٹورنامنٹ کے مختلف مراحل ہوتے ہیں۔ حتمی مرحلے کا نام ’میکپنگ فائنل‘ ہے اور جتنے والے کسان کو دو لاکھ پاکستانی روپے کے برابر رقم دی جاتی ہے۔
تصویر: Claudio Sieber
’سجے سجائے‘ بیل
کسان اس میلے میں شرکت کے لیے اپنے بیلوں کو خوب اچھی طرح سجاتے ہیں۔ سب سے زیادہ زیور بیلوں کے سروں پر باندھنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔