انڈونیشیا: حکام کشتی حادثے کے ذمہ دار انسانی اسمگلروں کی تلاش میں
21 دسمبر 2011تفصیلات کے مطابق کم از کم 47 افراد کو بر وقت امدادی کارروائیوں کے باعث بچا لیا گیا ہے۔حکام کے مطابق کشتی میں گنجائش سے زیادہ افراد سوار تھے۔ صرف 100 افراد کا وزن برداشت کرنے والی کشتی میں قریب 250 افراد سوار تھے جس کے باعث یہ کشتی انڈونیشیا میں مشرقی جاوا سے چالیس میل دور سمندر میں ڈوب گئی۔کشتی میں سوار زیادہ تر تارکین وطن کا تعلق ایران اور افغانستان سے تھا۔
وسطی جاوا کی امدادی ایجنسی کے سربراہ سیترسنو نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اب تک امدادی کارکنوں نے تیس افراد کی مسخ شدہ لاشیں ساحل تک پہنچائی ہیں جبکہ دس مزید افراد کی لاشیں نیوی کا ایک بحری جہاز لے کر ساحل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ابھی مزید مردہ جسم پانی پر تیر رہے ہیں تاہم ان کی صحیح تعداد کے بارے میں بتانا ممکن نہیں ہے۔
جائے حادثہ پر موجود اے ایف پی کے ایک نامہ نگار کے مطابق ساحل تک لائےگئے مردہ اجسام میں ایک سات یا آٹھ سالہ لڑکے کی لاش بھی شامل ہے۔امدادی کارکنوں کے مطابق بعض افراد کے جسم اس قدر مسخ ہو چکے ہیں کہ ان کے مختلف اجزاء الگ الگ پانی میں تیر رہے ہیں۔
زندہ بچ جانے والے زیادہ تر افراد شدید صدمے سے دوچار ہیں اور ان کے لیے بات کرنا بھی مشکل ہو رہا تھا ۔ ان میں سے تیرہ افراد نے اس ہولناک حادثے کی تفصیلات اور ریسکیو سے پہلے سمندر میں تین دن تک اپنی بقا کی جنگ لڑنے کے حوالے سے آگاہ کیا۔ حادثے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ طوفانی موسم میں کشتی کے ڈوبنے کے وقت عملے کے اراکین اور تارکین وطن کے درمیان دو درجن سے زائد لائف جیکٹس کے حصول کے لیے ہاتھا پائی بھی ہوئی تھی۔
پولیس کے سربراہ ایری ڈونو سکمنٹو نے اے ایف پی کو بتایا کہ زندہ بچ جانے والے افراد میں عملے کے دو ارکان بھی شامل ہیں تاہم ابھی وہ کسی بھی سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں اور پولیس کو تحقیقات کے لیے انتظار کرنا ہو گا۔ اس سے قبل گزشتہ ماہ بھی ایک حادثے میں گنجائش سے زیادہ افراد کو آسٹریلیا لے جانے والی ایک کشتی انڈونیشیا کے پانیوں میں ڈوب گئی تھی جس کے نتیجے میں نو تارکین وطن ہلاک ہو گئے تھے۔
آسٹریلیا کے وزیر داخلہ جیسن کلیئر کے مطابق انڈونیشیا نے ایسے واقعات کے سدباب اور انسانی اسمگلروں کی روک تھام کے لیے آسٹریلیا سے مدد کی درخواست کی ہے۔ سکمنٹو کے مطابق آسٹریلوی پولیس پہلے ہی سے اس واقعے کی تفتیش میں ان کی مدد کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انسانی اسمگلروں کی تلاش جاری ہے اور تارکین وطن نے اس بات کا بھی انکشاف کیا ہے کہ اس دھندے میں کئی افراد ملوث ہیں۔
رپورٹ: شاہد افراز خان
ادارت: امجد علی