1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستانڈونیشیا

انڈونیشیا: مرحوم آمر سوہارتو قومی ہیرو قرار

جاوید اختر اے ایف پی، روئٹرز کے ساتھ
10 نومبر 2025

انڈونیشیا نے پیر کے روز سابق صدر سوہارتو کو ایک تقریب کے دوران قومی ہیروز کی فہرست میں شامل کر لیا۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ریکارڈ کے باعث کارکنوں اور ماہرین تعلیم نے اس فیصلے کی سخت مخالفت کی۔

انڈونیشیا کے سابق صدر سوہارتو
سوہارتو پر کرپشن اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کیے گئے، جن میں سیاسی مخالفین کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن بھی شامل تھاتصویر: CPA Media/picture alliance

صدارتی فوجی سیکریٹری کی جانب سے پڑھے گئے ایک حکم نامے میں، سوہارتو کا نام 10 نئے اعزاز یافتگان میں شامل کیا گیا جنہیں "قومی ہیرو" کا درجہ دیا گیا ہے۔

یہ فہرست 200 سے زائد افراد پر مشتمل ہے، جن میں انڈونیشیا کے پہلے جمہوری طور پر منتخب صدر، خواتین کے حقوق کی ممتاز علمبردار، اسلامی اسکالرز اور آزادی کے کارکنان بھی شامل ہیں۔

موجودہ صدر پرابوو سوبیانتو، جو سوہارتو کے سابق داماد ہیں، نے پیر کو منعقدہ قومی ہیروز ڈے کی تقریب کی صدارت کی۔

سوہارتو کو ہیرو قرار دینے کے منصوبے پر تنقید کے جواب میں، پرابوو کے دفتر ک‍ا مؤقف تھا کہ صدر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کسی کو بھی یہ اعزاز دے سکیں۔

سابق صدر سوہارتو، جو 2008 میں 86 برس کی عمر میں وفات پا گئے، نے 1967 میں ایک ناکام فوجی بغاوت کے بعد اقتدار پر قبضہ کیا اور تین دہائیوں سے زائد عرصے تک آمرانہ انداز میں انڈونیشیا پر حکومت کی۔

ان کے دورِ حکومت میں کرپشن اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات سامنے آئے، جن میں سیاسی مخالفین کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن بھی شامل تھا۔

سوہارتو کے تین دہائیوں پر مشتمل دورِ حکومت میں تیز معاشی ترقی اور سیاسی استحکام بھی دیکھا گیا،تصویر: Mast Irham/dpa/picture alliance

سوہارتو کو قومی ہیرو قرار دینے کی مخالفت کیوں؟

گزشتہ ہفتے تقریباً 500 شہری سماجی تنظیموں، کارکنوں اور ماہرین تعلیم نے پرابوو کو ایک خط بھیجا، جس میں ان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ سوہارتو کو قومی ہیرو قرار دینے کے فیصلے سے باز رہیں۔

خط میں کہا گیا کہ سوہارتو کو یہ لقب دینا مظلومین اور جمہوری اقدار سے غداری کے مترادف ہے اور یہ تاریخ کو خطرناک انداز میں مسخ کرنے کے برابر ہے۔

پرابوو خود بھی گزشتہ سال انتخابات میں بھاری کامیابی کے بعد متعدد پرتشدد احتجاجات کا سامنا کر چکے ہیں، جو زیادہ تر معاشی عدم مساوات اور قانون سازوں کو دیے جانے والے پرتعیش مراعات کے خلاف تھے۔

مقامی انسانی حقوق کی تنظیم 'کمیشن فار دی ڈس اپیئرڈ اینڈ وکٹمز آف وائلنس‘ (کونٹراس) نے کہا کہ سوہارتو کو قومی ہیرو قرار دینا غیر اخلاقی عمل ہے اور اس سے مجرموں کو استثنا کا تاثر ملتا ہے۔

کونٹراس کے کوآرڈینیٹر دیماس باگوس آریا نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، سوہارتو، جن پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، ریاستی تشدد اور دیگر جرائم میں ملوث ہونے کے شبہات ہیں، وہ قومی ہیرو کے لقب کے مستحق نہیں ہیں۔

حکومت کے سیکریٹری پراسیتیو ہادی نے حکومت کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا، ''یہ ہمارے بزرگوں، خصوصاً رہنماؤں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا ایک طریقہ ہے، جنہوں نے بلاشبہ قوم اور ملک کے لیے غیر معمولی خدمات انجام دیں۔‘‘

سوہارتو کی بیٹی سیتی ہاردیانتھی رُکمانا اور بیٹے بامبانگ تری ہتمودجو بھی پیر کی تقریب میں شریک تھے۔ سیتی نے تقریب کے بعد صحافیوں سے کہا، ''براہِ کرم یاد رکھیں کہ میرے والد نے نوجوانی سے بڑھاپے تک اس ملک اور انڈونیشی عوام کے لیے کتنی جدوجہد کی۔‘‘

دیگر نو نئے ہیروز میں مزدور رہنما مرسینا، جنہیں قتل کر دیا گیا تھا، اور سابق صدر عبد الرحمن واحد (جن کا انتقال 2009 میں ہوا) بھی شامل ہیں۔

ایک سخت گیر کمیونزم مخالف کے طور پر سوہارتو کو مغربی ممالک، بالخصوص واشنگٹن کی حمایت حاصل تھی، جس نے خاموشی سے 1975 میں انڈونیشیا کے مشرقی تیمور پر ظالمانہ حملے کی منظوری دیتصویر: Public Domain

سوہارتو کون تھے؟

سوہارتو، ایک فوجی افسر تھے، جنہوں نے 1968 میں باضابطہ طور پر انڈونیشیا کے صدر کا عہدہ سنبھالا، جب انہوں نے ملک کے پہلے صدر اور آزادی کے رہنما سوکارنو سے اقتدار چھین لیا۔ اس وقت سرد جنگ عروج پر تھی، اور انڈونیشیا کے عوام سمیت مغربی ممالک بھی سوکارنو کو کمیونزم کا حامی سمجھتے تھے۔

یہ اقتدار کی منتقلی اس وقت ہوئی جب فوج کی قیادت میں ایک بڑی مہم کے تحت کمیونسٹوں کا صفایا کیا گیا۔ فوج کا کہنا تھا کہ کمیونسٹ عناصر 1965 کے آخر میں بغاوت کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ مؤرخین کے مطابق اس مہم کے دوران تقریباً 5 لاکھ افراد مارے گئے، جو بیسویں صدی کے بدترین قتلِ عام میں سے ایک تھا۔ اس واقعے کی کبھی سرکاری طور پر تحقیقات نہیں کی گئیں۔

ایک سخت گیر کمیونزم مخالف کے طور پر سوہارتو کو مغربی ممالک، بالخصوص واشنگٹن کی حمایت حاصل تھی، جس نے خاموشی سے 1975 میں انڈونیشیا کے مشرقی تیمور پر ظالمانہ حملے کی منظوری دی۔ پرابوو، جو اس وقت فوجی افسر تھے، 1983 میں سوہارتو کے ماتحت مشرقی تیمور میں فوجی کارروائیوں کی قیادت کر رہے تھے۔

سوہارتو کے تین دہائیوں پر مشتمل دورِ حکومت میں تیز معاشی ترقی اور سیاسی استحکام دیکھا گیا، مگر اس کے ساتھ انسانی حقوق اور اظہارِ رائے کی آزادی پر سخت پابندیاں عائد کی گئیں، اور فوج نے مخالفین اور علیحدگی پسند تحریکوں کے خلاف پرتشدد کارروائیاں کیں۔

سوہارتو اور ان کے خاندان پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں بدعنوانی کے ذریعے تقریباً 45 ارب ڈالر جمع کیے۔ تاہم یہ الزامات کبھی ثابت نہیں ہو سکے۔ 2000 میں پہلی بار ان پر بدعنوانی کے مقدمات چلانے کی کوشش کی گئی، مگر سوہارتو عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور بعد میں انہیں بیماری کے باعث مقدمے کا سامنا کرنے کے قابل نہیں قرار دیا گیا۔

ادارت: صلاح الدین زین

جاوید اختر جاوید اختر دنیا کی پہلی اردو نیوز ایجنسی ’یو این آئی اردو‘ میں پچیس سال تک کام کر چکے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں