انڈونیشیا میں خواتین سے متعلق متنازعہ فیصلے
5 ستمبر 2018![Indonesien - Scharia Polizei](https://static.dw.com/image/36371663_800.webp)
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے بتایا ہے کہ انڈونیشیا کے آچے صوبے کی ڈسٹرکٹ بیریاوان کی مقامی انتظامیہ نے ہوٹلوں اور ریستورانوں کے مالکان سے کہا ہے کہ وہ رات نو بجے کے بعد ایسی خواتین کو داخلے کی اجازت نہ دیں، جو رشتہ دار مردوں کے بغیر ہوتی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ یہ نئے قواعد و ضوابط تیس اگست کو جاری کیے گئے۔ تاہم منگل کے دن اس خبر کے سوشل میڈیا پر عام ہونے کے بعد سے مقامی لوگ بھی ان نئے قواعد پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
آچے میں اسلامی قوانین نافذ ہیں اور اس صوبے میں جوا، شراب کی خریدو فروخت یا استعمال اور شادی سے باہر کسی بھی قسم کے جنسی روابط پر کوڑے مارے جانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔ آچے انڈونیشیا کا وہ واحد صوبہ ہے، جہاں اسلامی قوانین کا نفاذ کیا گیا ہے۔ جکارتہ کی مرکزی حکومت آچے کو علیحدہ ہونے سے روکنا چاہتی ہے اور اسی لیے اس صوبے کے ان مطالبات کو تسلیم کیا گیا ہے۔
مقامی حکام نے بتایا ہے کہ نئے اسلامی قواعد کے مطابق ہوٹلوں اور ریستورانوں کے مالکان کو یہ ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں کہ وہ ہم جنس پرست افراد اور ٹرانس جینڈرز کو اپنے ہاں ملازمت پر مت رکھیں۔ مزید یہ کہ ایسے مقامات پر ’نامحرم‘ مردوں کے ہمراہ آنے والی خواتین کو سروسز فراہم نہ کی جائیں اور رات نو بجے کے بعد اکیلی خواتین کو ریستواروں اور کیفے میں داخلے کی اجازت نہ دی جائے۔
بیریاوان سے آچے کی قانون ساز کونسل کے رکن کاٹسور یُس کے مطابق، ’’اس قسم کے قواعد سے معاشرے میں خواتین کی آزادانہ نقل و حرکت کو پابند بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘‘ انہوں نے ڈی پی اے سے گفتگو میں مزید کہا، ’’بیریاوان کے نمائندہ ہونے پر مجھے افسوس ہے کہ یہ کثیر الثقافتی علاقہ قدامت پسندی کی طرف راغب ہوتا جا رہا ہے۔‘‘
تاہم بیریاوان کے شریعہ دفتر کے سربراہ جوفیوان نے نئے ضوابط کا دفاع کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’اکیلی خاتون کا کسی کیفے میں جانا، غلط تاثرات کو جنم دے سکتا ہے‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بیریاوان کی حکومت اتنی سخت نہیں کہ ان ریگولیشنز کو فوری طور پر بھروپور طریقے سے نافذ کر دیا جائے بلکہ ہم ان قواعد و ضوابط کو لاگو کرنے میں تمام فریقین سے مشاورت کا سلسلہ جاری رکھیں گے‘۔
ع ب / ا ا / خبر رساں ادارے