انڈونیشیا میں نئی سزا ’کیمیکل سے خصی کرنا‘
21 اکتوبر 2015خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق جکارتہ حکومت بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا ارتکاب کرنے والے مجرموں کو ایک خاص کیمیائی مادے کے ذریعے جنسی صلاحیتوں سے محروم کرنے کے بارے میں قانون سازی کرنے والی ہے۔ ڈی پی اے نے انڈونیشی کابینہ کی ویب سائٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ صدر جوکو ودودو نے کیمیکل کے ذریعے ایسے مجروں کو خصی کر نے کے قانون کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ اسے جلد از جلد منظور کیا جائے۔
بچوں کے تحفظ کے قومی ادارے کے چیئرمین ماردیکا سیریئات نے بھی اس تجویز کا خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’جہاں تک بچوں کے ساتھ زیادتی کا معاملہ ہے تو انڈونیشا کو آج کل اس تناظر میں ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ بچوں کو جنسی ہوس کا نشانہ بنانے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جبکہ بچوں کو کوئی مناسب تحفظ بھی حاصل نہیں۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 2011ء میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 2178 واقعات رونما ہوئے تھے جبکہ 2014ء میں ایسے 5066 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ سماجی امور کے انڈونیشی وزیر کوفیفا اندر پاراوانسا نے بھی تصدیق کی کہ صدر ودودو نے جیل کے علاوہ ایسے مجرموں کو خصی کرنے کے سزا کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدر ایسے ضابطے جلد ہی وضع کرنے والے ہیں، جن میں اس حوالے سے تمام دفعات موجود ہوں گی۔ ملکی اٹارنی جنرل محمد پراسیتیو کے مطابق کیمیکل کے ذریعے نا مرد کرنے کے دوران مجرم کے جسم میں انجکشن کے ذریعے ایسے ہامونز داخل کیے جائیں گے، جو خواتین میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد اس کی جنسی خواہش انتہائی کم ہو جائے گی۔
انڈونیشیا میں بچوں کے تحفظ کے قانون کے مطابق بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا مرتکب پائے جانے والے کسی بھی شخص کو پندرہ سال تک جیل اور اکیس ہزار ڈالر تک کا جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ قوانین 2002ء میں لاگو کیے گئے تھے۔